مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف پولیس کی بغاوت

مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کے خلاف بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی وحشیانہ کارروائی

مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کے خلاف بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی وحشیانہ کارروائی

سرینگر ۔۔۔ نیوز ٹائم

مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کے خلاف بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی وحشیانہ کارروائی نے مقامی پولیس کو بھی احتجاج پر مجبور کر دیا ہے،  اس صورتحال پر ریاستی کٹھ پتلی حکومت خاصی پریشان ہے۔ ادھر یہ ہولناک تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران  Central Reserve Police Force اب تک مظاہرین پر ساڑھے 13 لاکھ سے زائد چھرے برسا چکی ہے۔ سری نگر میں موجود ذرائع نے بتایا کہ بھارتی فوجی، Rashtriya Rifles اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے احتجاجی مظاہرین کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے ساتھ ساتھ اب مختلف دیہات میں گھس کر عام شہریوں کے گھروں پر حملوں سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے اب تک مقبوضہ وادی Aartii Pathan ،  Larkipura ، Caramello  ، Ganderbal اور Bøgh سمیت دیگر علاقوں میں نصف درجن سے زائد واقعات ہو چکے ہیں۔ 2 روز قبل گاندربل کے ایک گائوں میں بھارتی فوجی اہلکاروں نے مختلف گھروں پر ہلہ بول دیا۔ اس دوران خواتین سمیت دیگر مکینوں کو بری طرح زدوکوب کیا گیا۔ گھروں میں جو بھی قیمتی اشیا تھیں وہ لوٹ لی گئیں۔ اس موقع پر بھارتی فوجیوں نے جو شراب کے نشے میں دھت تھے،  گائوں کے 35 سے زائد گھروں کے کھڑکی، دروازے توڑ دیئے اور ان کے مکینوں کو نشانہ بنایا۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر جب ایک پولیس ٹیم گائوں میں پہنچی اور فوجی اہلکاروں کو سمجھانے کی کوشش کی تو بھارتی فوجیوں نے ان پولیس اہلکاروں کو بھی مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور ان کی وردیاں پھاڑ دیں۔ اس مار پیٹ کے نتیجے میں مقامی پولیس کے دو کانسٹیبل مقصود اور عارف شدید زخمی ہو گئے۔ مقامی پولیس کے اعلی حکام نے متعلقہ فوجی اہلکاروں کے خلاف اس واقعہ کی رپورٹ درج کرانا چاہی تو وزیر اعلیٰ ہائوس سے آنے والی کال پر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ تاہم اس واقعہ پر مقامی پولیس میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ضلع پلوامہ کے علاقہ کھریو میں بھارتی فوجیوں نے مختلف گھروں میں گھس کر مکینوں پر شدید تشدد کیا  اور 28 افراد کو گرفتار کر کے لے گئے۔ ان میں 23 سالہ لیکچرار شبیر اور اس کا نوجوان بھائی شامل تھا۔ چند گھنٹوں بعد شبیر احمد کے اہلخانہ کو کہا گیا کہ اس کی لاش آ کر لے جائیں اہلخانہ جب نوجوان لیکچرار کی لاش لیکر آئے تو اس پر زخموں کی ان گنت نشانات تھے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق تشدد کے ذریعے شبیر کی موت کے بعد بھارتی فوجیوں نے پولیس کو کہا کہ وہ مقتول کی لاش اہلخانہ کو پہنچا دیں۔ تاہم پولیس نے انکار کر دیا۔ بعدازاں پولیس نے جمعرات کو لیکچرار کو قتل کرنے کا مقدمہ بھارتی فوج کے خلاف درج کر لیا۔ پام پورہ پولیس سٹیشن میں فوج کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس ایف آئی آر کے بعد مقامی پولیس اور بھارتی فوج کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ سری نگر کے مقامی میڈیا سے وابستہ ایک رپورٹر نے بتایا کہ جموں و کشمیر پولیس دوہرے عذاب میں مبتلا ہے۔ ایک طرف اسے قابض بھارتی فوج اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے  تو دوسری جانب مقامی ہونے کے ناطے ان پولیس اہلکاروں کی شناخت آسانی سے ہو جاتی ہے اور وہ مجاہدین کا ترنوالہ بن جاتے ہیں صحافی کے مطابق اس وقت مقبوضہ وادی میں ایک لاکھ سے زائد مقامی پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ ان میں سے کم از کم 50 فیصد ایسے ضرور ہیں جو اپنے ہی لوگوں پر گولی نہیں چلانا چاہتے اور یہ کہ ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہیں جو وہ قابض فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو اپنے ہی گائوں اور برادری کے گھروں میں گھس کر کارروائی کرتا ہوا دیکھتے ہیں جس میں خواتین سے بھی ناروا سلوک کیا جاتا ہے تو ان کا خون کھول دیا جاتا ہے۔ معاشی مجبوریاں انہیں نوکری چھوڑنے سے روکے ہوئے ہیں، تاہم اب ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ پولیس اہلکار نہ صرف ملازمت چھوڑ رہے ہیں بلکہ قابض فوج کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے والی تنظیموں کو جوائن کرنے لگے ہیں۔ برہان وانی کے قابل اعتماد کمانڈر نصیر احمد پنڈت کی مثال سامنے ہے جو کئی برس محکمہ پولیس میں ڈیوٹی کرتا رہا۔ اب ایسے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں کہ جس میں پولیس اہلکاروں نے بھارتی فوج کو متعدد مواقع پر بیہمانہ قسم کی کارروائی سے روکنے کی کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ صحافی کے بقول متعدد پولیس والوں نے اس طرح کے خیالات کا اظہار خود ان سے بھی کیا ہے اور اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو کہ مقامی پولیس بھی قابض بھارتی فوج کے خلاف بغاوت کر دے۔ پچھلے ماہ سے جاری تحریک کے حوالے سے مذکورہ رپورٹر کا کہنا تھا کہ اس میں بھی مقامی پولیس کو آخری اقدام کے طور پر صرف آنسو گیس استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ سنٹرل ریزرو پولیس فورس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اب تک نہتے کشمیری مظاہرین پر پیلٹ گن کے ساڑھے 3 ہزار سے زائد کارتوس چلا چکی ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق جمعرات کے روز پیلٹ گن پر پابندی سے متعلق درخواست کی سماعت جموں و کشمیر ہائیکورٹ میں ہوئی۔ اس موقع پر سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ذمہ داران نے عدالت کو آگاہ کیا  کہ برہان وانی کی موت کے بعد 8 جولائی سے شروع ہونے والے احتجاج سے لیکر 11 اگست تک پمپ ایکشن گن کے ذریعے 3 ہزار 7 سو 65 کارتوس مظاہرین پر چلائے جا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو صرف سی آر پی ایف نے افشا کیے ہیں، تاہم بھارتی فوج، راشٹریہ رائفلز اور مقامی پولیس کی جانب سے جو ایمونیشن استعمال کیا گیا اس کی رپورٹ تاحال جمع نہیں کرائی گئی ہے۔

No comments.

Leave a Reply