بھارت کی ایک اور بے عزتی، آن سانگ سوچی نے پاکستان کو تنہا کرنے کی مخالفت کر دی

میانمار کی وزیر خارجہ اور آزادی اظہار و اِنسانی حقوق کی علمبردار آن سانگ سوچی

میانمار کی وزیر خارجہ اور آزادی اظہار و اِنسانی حقوق کی علمبردار آن سانگ سوچی

نئی دہلی ۔۔۔ نیوز ٹائم

میانمار کی وزیر خارجہ اور آزادی اظہار و اِنسانی حقوق کی علمبردار Aung San Suu Kyi نے بھارت میں بیٹھ کر بھارتی حکمرانوں اور میڈیا کی توقعات پر پانی پھیر دیا پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے بھارتی موقف کی نفی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میانمار میں کچھ عرصہ پہلے تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہوئی جس میں اس گروپ کے ملوث ہونے کے الزامات لگے جسے پاکستان میں تربیت یافتہ ایک شخص  Havistoohar  چلا رہا تھا ہمیں نہیں پتہ یہ شخص کئی ماہ کی دہشت گردانہ تربیت میں کیا کرتا رہا ہمارے پاس اطلاعات تھیں کہ اس کی تنظیم  Aqa Mul Mujahidin  کو بعض اسلامی ملک فنڈ فراہم کر رہے ہیں مگر یہ صرف ایک ذریعہ سے حاصل شدہ اطلاع تھی اور ہم اسے مکمل درست نہیں سمجھ سکتے تھے۔ تاہم ہم اس پر چوکنے ہو گئے کسی ملک پر الزام نہیں لگایا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے دوران دہشت گردی کو تنہا کرنے کی ضرورت ہے کسی ملک طبقے یا گروہ کو نہیں اس کے علاوہ یہ بھی مدنظر رکھنا ضرور ہے کہ تشد سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دہشت گردی کو ہتھیار بنانے پر مجبور ہوتے ہیں انہیں اس کا کوئی شوق نہیں ہوتا انہوں نے کہا کسی ملک یا طبقے کو عالمی سطح پر تنہا کر دینے سے دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا اس مسلئے پر سب ممالک کو مل کر کوششیں کرنی ہو گی۔ بھارتی اخبار کو نئی دہلی میں میانمار کے سفارتخانے میں انٹرویو دیتے ہوئے Aung San Suu Kyi جو میانمار کی de-facto حکمران بھی نے ان رپورٹس پر کہ حکومت میانمار نے امریکی سفیر کو روہنگیا مسلمانوں  کی اصلاح کو اپنی گفتگو میں استعمال کرنے سے منع کیا ہے جس پر تنقید کی جا رہی ہے۔ Aung San Suu Kyi نے کہا کہ اس اصلاح کے استعمال سے بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی فاصلے بڑھتے ہیں ہماری ریاست Rakhine کے باشندے ان مسلمانوں کو بنگلہ دیشی مانتے ہیں جبکہ یہ مسلمان تمام نہیں مگر اکثریت اپنے آپ کو روہنگیا کہتے ہیں ان کا مسئلہ بہت پرانا اور ہمارے اپوزیشن والے دور میں ہونے کے وقت سے چلا آ رہا ہے  اور اس مسئلے کو حال کرنے میں بنگلہ دیش ہماری مدد کر سکتا ہے Aung San Suu Kyi نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ بچھلی فوجی حکومت کی طرف بھارت کے جھکائو کو مدنظر رکھتے ہوئے میانمار کا رجحان چین کی طرف بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بھارت، بنگلہ دیشں سمیت تمام ممالک سے برادرانہ تعلقات ہیں۔

No comments.

Leave a Reply