میکسیکو کا منفرد شیران نامی قصبہ، جس کی بہترین مثال اس کہانی میں درج ہے

سولہ  ہزار کی آبادی پر مشتمل شیران ریاست

سولہ ہزار کی آبادی پر مشتمل شیران ریاست

میکسیکو ۔۔۔ نیوز ٹائم

میکسیکو کو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ بدعنوان سیاست دانوں، کرپٹ پولیس اور ضمیر فروش منصفوں کے تعاون نے اسمگلروں اور مافیاز کو بے انتہا طاقتور بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میکسیکو میں منشیات کی اسمگلنگ، قتل و غارت، ڈکیتی و راہ زنی اور سرکاری و نجی املاک پر قبضے کے واقعات عروج پر ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں بااثر مجرموں اور مافیا کی حکمرانی ہے۔ مگر ایک قصبہ ایسا ہے جہاں کسی مافیا کی عمل داری نہیں اور نہ ہی یہاں بدعنوان سیاست دانوں اور پولیس کا زور چلتا ہے۔ ریاست  Mysuakan میں واقع Sharon نامی قصبہ اس امر کی بہترین مثال ہے کہ جب کسی علاقے کے باسی متحد ہو جائیں تو پھر طاقتور مافیا بھی ان کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں، کرپٹ سیاست دانوں اور بد عنوان پولیس افسران کی حمایت بھی مجرموں کو وہاں قدم جمانے میں مدد نہیں دے سکتی۔ Sharon ہمت نسواں کی بھی روشن مثال ہے کہ آج اگر اس قصبے کے باسی چین کی نیند سوتے ہیں اور نصف شب کو بلا خوف و خطر گھر سے باہر نکل آتے ہیں تو اس کے لیے وہ ان جری خواتین کے ممنون ہیں جنھوں نے جرائم پیشہ گروہ کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔ یہ 5 سال پہلے کی بات ہے۔ 16 ہزار کی آبادی پر مشتمل Sharon ریاست کے دوسرے قصبوں ہی کی طرح ایک قصبہ تھا۔ Sharon کے باسی کئی برس سے دیکھ رہے تھے کہ غنڈوں کا ایک گروہ قصبے کے اطراف واقع پہاڑی جنگل کا صفایا کرتا چلا جا رہا ہے۔ قصبے کی بیشتر آبادی کا پیشہ کاشت کاری اور گلہ بانی ہے۔ جنگل ان کے مویشیوں کے لیے چارے کی فراہمی کا بڑا ذریعہ تھا مگر اب انھیں جنگل کا رخ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان غنڈوں کو منشیات کے اسمگلروں کی طاقتور مافیا، Familia Michoacana کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ مقامی سیاست دان اور پولیس افسران بھی ان کی مٹھی میں تھے۔ مافیا پہاڑی جنگل کا صفایا کر کے یہاں مگر ناشپاتی (avocado) کی کاشت کرنا چاہتی تھی۔ مافیا کے کارندے تیزی سے جنگل کا صفایا کر رہے تھے۔ روز کئی ٹرک درختوں کے تنوں سے بھر کر جاتے تھے اور قصبے کے لوگ بے بسی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے میئر اور پولیس افسران کئی بار اس صورت حال پر ایکشن لینے کی درخواست کی مگر ان کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ اب ان کے پاس جرائم پیشہ گروہ کے سامنے مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ قصبے کے لوگ اپنی ضروریات کے لیے پانی ایک قدرتی چشمے سے حاصل کرتے تھے۔ مافیا کے کارندے درختوں کا صفایا کرتے کرتے جب چشمے کے قریب پہنچ گئے تو لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انھیں ڈر تھا کہ درخت کٹ جانے سے چشمہ سوکھ جائے گا اور پھر وہ قصبہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ گویا اب ان کی بقا کا معاملہ بن گیا تھا۔ مسلح جرائم پیشہ گروہ کے خلاف مزاحمت کا آغاز Margarita Elvira Romero نے کیا۔ وہ چند ہم خیال عورتوں کو ساتھ لے کر جنگل میں گئی اور غنڈوں کو درختوں کی کٹائی بند کر دینے کے لیے کہا۔ جواباً انھیں گالیاں سننی پڑیں اور ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کے بعد ان عورتوں نے قصبے میں سے گزرنے والے ٹرکوں کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ قصبے کے مرد بھی اب اس منصوبے میں شریک ہو گئے تھے جنہیں Margarita Elvira Romero اور دوسری عورتوں کے ساتھ مسلح بدمعاشوں کے ناروا سلوک نے مشتعل کر دیا تھا۔ 15 اپریل 2011 ء کی شب Margarita Elvira Romero اور اس کے ساتھیوں نے قصبے میں سے گزرنے والی بس پر سنگ باری کرتے ہوئے اسے روک لیا۔ بس میں مسلح کارندے سوار تھے۔ اس کارروائی سے کچھ ہی دیر قبل قصبے کے واحد چرچ کا گھنٹا بجا کر اور پٹاخے چھوڑ کر لوگوں کو خطرے سے خبردار کر دیا گیا تھا۔ آتش بازی اور گھنٹے کی آواز سن کر قصبے کے سبھی مرد، عورتیں اور بچے چھریاں، پتھر اور لاٹھیاں لیے دوڑتے ہوئے قصبے کے مرکز میں پہنچ گئے جہاں Margarita Elvira Romero اور اس کے ساتھیوں نے جرات کی مثال قائم کرتے ہوئے مسلح غنڈوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اب گھریلو ہتھیاروں سے مسلح قصبے کے باسی یرغمالیوں کے ساتھیوں کی آمد کے منتظر تھے۔ دو گھنٹے بعد وہ پولیس اور میئر کی ہمرا میں وہاں پہنچ گئے۔ غنڈوں کے سرغنہ اور راشی پولیس افسران کی دھمکیوں کے باوجود اہل قصبہ نے اس وقت تک یرغمالیوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جب تک کہ جرائم پیشہ گروہ جنگل کی کٹائی ترک کر کے یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلا نہیں جاتا۔ طویل بحث مباحثے کے بعد بالآخر مافیا باس اور اس کے کارندوں کو دیہاتیوں کی بات ماننی پڑی۔ Margarita Elvira Romero نے ان پر یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر مافیا باس اپنے وعدے سے پھر گیا اور درختوں کی کٹائی بند نہ ہوئی تو قصبے کے لوگ جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پھر یہی کارروائی کریں گے۔ ہزاروں لوگوں کے ہجوم نے فلک شگاف نعرے لگا کر Margarita Elvira Romero کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس جم غفیر کو ہم آواز دیکھ کر غنڈوں کے سرغنہ اور اس کے حواریوں کو وہاں مزید ٹھہرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ یہ Sharon کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ اس دن سے قصبے میں انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ قصبے کے لوگوں نے جرائم پیشہ عناصر کا ساتھ دینے کی پاداش میں میئر اور دیگر منتخب نمائندوں کو قصبہ بدر کر دیا اور قصبے میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو بھی قصبے سے مار بھگایا۔ سیاسی جماعتوں کے متبادل کے طور پر قصبے کے ہر 4 اضلاع میں سے نمائندے منتخب کر کے قصبے کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ٹان کونسل تشکیل دی گئی اور اس کے اراکین 3 سال کے لیے منتخب کیے گئے۔ علاوہ ازیں مقامی مردوں اور عورتوں پر مشتمل ملیشیا تشکیل دی گئی اور قصبے میں سے گزرنے والی تین سڑکوں کے داخلی مقامات پر چوکیاں قائم کی گئیں۔ اسمگلروں اور ٹمبر مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکیوں میں مسلح محافظ تعینات کیے گئے۔ آج قصبے میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ قتل، اغوا اور مسلح ڈکیتیوں کی وارداتیں قصہ بن چکی ہیں، البتہ چوری یا شراب کے نشے میں ہاتھا پائی جیسے اکا دکا واقعات ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی بڑی واردات ہو جائے تو پھر فیڈرل اٹارنی کو بلایا جاتا ہے مگر پانچ سال کے دوران محض دو بار یہ موقع آیا تھا۔ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث افراد کو سزا ٹائون کونسل دیتی ہے۔ یہ سزائیں عموماً جرمانے، کمیونٹی ورک میں حصہ لینے یا پھر چند روز حوالات کی ہوا کھانے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ Sharon کی خودمختار حکومت کو وفاقی حکومت نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اطراف کے قصبوں میں جہاں جرائم کی شرح بلندیوں کو چھو رہی ہے،  Sharon کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے مگر انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ ان آبادیوں میں Sharon کے باسیوں جیسا اتحاد و اتفاق موجود نہیں۔

No comments.

Leave a Reply