ترکی میں نئے نظام کی منصوبہ بندی، جس میں کوئی وزیر اعظم نہیں ہو گا

ترکی میں وزیر اعظم کو عہدہ ختم کرنے کے لیے اگلے برس ریفرنڈم کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے

ترکی میں وزیر اعظم کو عہدہ ختم کرنے کے لیے اگلے برس ریفرنڈم کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے

استنبول ۔۔۔ نیوز ٹائم

ترکی میں ایک نیا نظام متعارف کروانے پر غور کیا جا رہا ہے، جس میں کوئی وزیر اعظم نہیں ہو گا۔  خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کے جنگلات اور پانی کے امور کے وزیر Veysel Eroglu نے ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی Anadolu کو بتایا، نئے نظام کے تحت ایک یا 2 نائب صدر ہوں گے جو صدر رجب طیب اردگان کے ماتحت کام کریں گے۔ انھوں نے مزید بتایا، نئے نظام میں کوئی وزیر اعظم نہیں ہو گا، اس کے تحت ایک صدر ہو گا اور ان کے بعد ایک نائب صدر، جس طرح امریکا میں ہوتا ہے، ہو سکتا ہے ہمارے پاس ایک سے زائد نائب صدر ہوں۔  Veysel Eroglu کے مطابق اس مجوزہ نظام کو اگلے برس تک ریفرنڈم کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ رجب طیب اردگان 2014 ء میں ترکی کے صدر منتخب ہوئے تھے، جو اس سے قبل ایک عشرے تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو مذکورہ نظام کے لیے ریفرنڈم کرانے کے سلسلے میں 550 سیٹوں پر مشتمل پارلیمنٹ میں سے کم از کم 330 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ Veysel Eroglu نے پیشگوئی کی کہ مجوزہ اصلاحاتی نظام اگلے برس بہار تک ریفرنڈم کے لیے پیش کر دیا جائے گا اور اس سلسلے میں اپوزیشن نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے ارکان اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہو گی۔ Veysel Eroglu نے مزید بتایا کہ نئے نظام کے تحت کابینہ وزرا بھی ارکان اسمبلی نہیں رہیں گے۔ انھوں نے بتایا، ایک ایسا سسٹم لایا جا رہا ہے جہاں قانون سازی اور انتظام الگ الگ چلایا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے نظام کے تحت صدر اردگان اپنی پارٹی کے ساتھ منسلک رہ سکیں گے، جو صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی پارٹی اے کے پی سے الگ ہو گئے تھے۔ Veysel Eroglu نے بتایا کہ پارلیمنٹ اور صدر کے لیے انتخابات 2019 ء میں ہوں گے۔ طیب اردگان کے صدر بننے سے قبل ترکش وزیر اعظم کے پاس زیادہ اختیارات تھے تاہم موجودہ وزیر اعظم بن علی یلدرم، طیب اردگان کے ماتحت نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اپنے انتخاب کے بعد سے طیب اردگان ایگزیکٹو صدر بن چکے ہیں اور ان تبدیلیوں سے ترکی پر ایک شخص کی بادشاہت ہو جائے گی۔  دوسری جانب ترکی کے مقامی اخبار ڈیلی Hurriyet کے انقرہ کے بیورو چیف نے اس حوالے سے لکھا کہ نئے نظام کے تحت اردگان 2029 ء تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔ واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے بڑے کریک ڈائون کو مغربی اتحادیوں کی جانب سے پہلے ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

No comments.

Leave a Reply