مایوسی اور نا امیدی موت کا سبب بنے والے دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے، تحقیق

 مایوسی اور نا امیدی موت کا سبب بنے والے دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے


مایوسی اور نا امیدی موت کا سبب بنے والے دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے

ہیلسنکی، فن لینڈ ۔۔۔ نیوز ٹائم

ایک  مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ ہر شے میں مایوسی ڈھونڈنے اور بے دلی سے کام کرنے والے افراد میں امراضِ قلب سے متاثر ہو کر ہلاک ہونے کی شرح واضح طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ فن لینڈ میں ماہرین نفسیات نے مایوسی اور پرامیدی کے دل اور جسم پر اثرات کا مطالعہ کیا جس میں پہلی مرتبہ قنوطی مزاج افراد اور امراض کا جائزہ لیا گیا۔  ابتدائی طور پر سامنے آیا کہ مایوسی میں گھرے افراد میں بلڈ پریشر اور ذیابطیس سے متاثر ہونے کا خطرہ دیگر پرامید لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اب 11 برس بعد معلوم ہوا ہے کہ اس سروے میں شامل 121 افراد ہلاک ہوئے جن کی اکثریت مایوسی کی شکار تھی۔ تحقیق کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ زندگی سے مایوس افراد اپنی صحت کا خیال بھی  نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنا طرزِ زندگی (لائف اسٹائل) تبدیل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مایوس افراد مستقبل پر نظر نہیں رکھتے اور نہ ہی آنے والی اچھی باتوں اور واقعات سے خوش ہوتے ہیں ان میں شوگر اور بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں آخر کار دل کے امراض کی وجہ بنتی ہیں جبکہ پرامید افراد مستقبل کے بارے میں مثبت ہوتے ہیں اور ان میں بلڈ پریشر اور دیگر امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ اس پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید مایوسی کا دل پر اثر ہوتا ہے اور اس سے وابستہ اموات کا ڈیٹا اب تک دستیاب نہ تھا اور اس ضمن میں یہ پہلی تحقیق ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے 2 ہزار سے زائد افراد کا 2002 ء میں مطالعہ کیا اور سروے میں شامل مرد و خواتین کی عمریں 52 سے 76 سال کے درمیان تھیں، ان سے معاشی صورتحال، نفسیاتی پس منظر، طرزِ زندگی، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے بارے میں ڈیٹا حاصل کیا گیا سب سے بڑھ کر ان میں مایوسی اور پرامیدی کے سوال بھی کیے گئے۔ ایک سوالنامے میں مایوسی اور امید پر تین، تین بیانات لکھنے کو کہا تھا۔  ان میں سے ایک پرامید رضاکار نے لکھا کہ  غیر یقینی صورتحال میں بھی میں بہترین کی توقع رکھتا ہوں۔ ایک مایوس شخص نے لکھا کہ  اگر میرے بارے میں کچھ برا ہونا ہوتا ہے تو ہو کر رہتا ہے۔ ماہرین نے پرامید اور نا امیدی کے احساس کو اس کی شدت کی بنا پر 0 سے 4 نمبر دیئے اور نمبر 4 اس کا بلند یا شدید ترین درجہ تھا۔ اس مطالعے کے 11 برس بعد مایوس رہنے والے 121 افراد وفات پا گئے جن میں اکثر دل کے امراض کے شکار ہوئے جبکہ امید رکھنے والے افراد زندہ و خوش رہے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ مایوس افراد میں جان لیوا امراض سے متاثر ہونے کا خدشہ دگنا ہوتا ہے۔ اس دریافت کے بعد ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں امید کا دامن ہاتھ میں رکھیں۔

No comments.

Leave a Reply