بے نظیر بھٹو۔۔۔ ایک تعارف

بے نظیر بھٹو نے کراچی میں 21 جون 1953 کو آنکھ کھولی

بے نظیر بھٹو نے کراچی میں 21 جون 1953 کو آنکھ کھولی

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بے نظیر بھٹو نے کراچی میں 21 جون 1953 کو آنکھ کھولی۔ اِسی شہر سے ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر راولپنڈی کے Convent اسکول میں داخل کروا دی گئیں۔ بعد ازاں Convent اسکول مری میں تعلیمی سفر آگے بڑھا۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیمی طے کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے امریکا چلی گئیں۔ 1969 سے 1973ء تک وہ Radcliffe College and Harvard University میں زیرِ تعلیم رہیں۔ اگلے تعلیمی مرحلے میں انہوں نے Oxford University میں قدم رکھا۔ یہاں سے بین الاقوامی قانون اور Diplomacy کا کورس مکمل کیا اور اسی سال Oxford کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس کالج سے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم مکمل کی۔ 1976ء میں Oxford یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے وزیر اعظم شہید Zulfikar Ali Bhuttoکی سیاسی زندگی میں اتار چڑھائو اور اس سفر میں مشکلات کو نہ صرف قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اقتدار کے ایوان سے جیل منتقل کیے جانے اور پھر پھانسی تک بے نظیر بھٹو نے خود بھی نہایت کڑے اور کٹھن حالات کا سامنا کیا اور مشکلات کا مقابلہ کرتی رہیں۔1977 میں جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو بے نظیر کی والدہ نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آ گئیں اور وہ بھی آمر کے عتاب کا نشانہ بنیں۔ انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ بعد کے برسوں میں انہوں نے باقاعدہ پارٹی قیادت سنبھالی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ ضیا الحق کے بعد جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور دو بار اس منصب پر فائز ہوئیں۔ اپنے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کی بہبود بالخصوص ان کی صحت کے حوالے سے اہم پالیسیاں بنائیں اور اقدامات بھی کیے۔ عورتوں کے خلاف متعدد امتیازی قوانین کا خاتمہ بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ بے نظیر بھٹو وومن پولیس اسٹیشن، عدالتیں اور ترقیاتی بینک قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں، تاہم انہیں دونوں مرتبہ اقتدار سے الگ کیا گیا اور وہ اپنے منصوبوں پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ کر سکیں۔ 2002 کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو ملک میں آ کر اپنی پارٹی کی قیادت نہ کر سکیں، تاہم ان کی غیر موجودگی میں پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا۔ 18 اکتوبر 2007ء کو وہ وطن واپس آئیں۔ وہ 2008 کے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی تھیں، مگر لیاقت باغ کے سانحے میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ جمہوریت کی بقا، اس کی خاطر قربانیوں، انسانی حقوق کے تحفظ، صنفی امتیاز کے خاتمے اور عوام دوست نظریات کے باعث انہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

No comments.

Leave a Reply