یورپی پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی کا نیا قانون منظور

یورپی پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی کا نیا قانون منظور

یورپی پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی کا نیا قانون منظور

اسٹراس برگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

یورپی پارلیمان نے انسداد دہشت گردی کا ایک نیا قانون منظور کر لیا ہے۔ اس طرح اب یورپی یونین کے تمام رکن ممالک میں دہشت گردی کے حوالے سے قانون سازی یکساں ہو گئی ہے۔ فرانسیسی شہر Strasbourg میں قائم یورپی پارلیمان نے انسداد دہشت گردی کی جو نئی قانون سازی منظور کی ہے، اس کے ذریعے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ کچھ مخصوص طرز عمل اور رویوں کو جرم قرار دیں۔ اس طرح دہشت گردی کی تربیت اور بھرتی کے علاوہ دہشت گردی کا پرچار کرنا یا اس کی مالی مدد کرنا یا اس کے لیے سفر کرنا اب جرم کے زمرے میں آئے گا۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے ملک کا سفر کرے کہ جہاں جنگی حالات پیدا ہوں بلکہ اگر اس مقصد کے لیے سفر یورپ کے اندر بھی کیا جائے تو بھی جرم ہو گا۔ تاہم یورپی سطح پر منظور کیے جانے والے ان قوانین کا اثر جرمنی پر نہیں پڑے گا کیونکہ جرمنی میں دہشت گردی کے کسی مرکز کا دورہ کرنا یا دہشت گردوں کی امداد کرنا پہلے ہی قابل سزا ہے۔ سلامتی کے امور کے یورپی کمشنر Julian King نے اس تناظر میں کہا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام رکن ممالک میں دہشت گردی کے خلاف قوانین ایک جیسے ہوں اور ان پر ایک ہی طرح سے عملدرآمد کیا جائے۔ اس طرح اب یورپی یونین نے دہشت گردی کی تعریف کا تعین نئے سرے سے کر دیا ہے۔ گرین پارٹی کے رکن پارلیمان Jan Philipp Albrecht کے مطابق دہشت گردی کے یہ معانی یا تعریف انتہائی غیر واضع ہیں۔ اسی طرح بائیں بازو کی جماعت Die linkeکی Cornelia Ernst نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دہشت گردی کی تشہیر یا پرچار کرنے کی بات کی جائے تو نئی قانون سازی میں اس حوالے سے مکمل وضاحت نہیں ہے۔ ان کے بقول اس طرح آزادی اظہار کا حق بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ Christian Democrats پارٹی کی Monika Hohlmeier کہتی ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے، دہشت گردی بہت کول ہے تو یہ ایک احمقانہ بیان سے زیادہ کچھ نہیں، میرے خیال میں اس سلسلے میں وہ پیشہ ور دہشت گردانہ تنظیمیں سزا کی مستحق ہیں، جو نوجوانوں کو متاثر کر کے دہشت گردی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یورپی پارلیمان نے یورپ کی بیرونی سرحدوں پر نگرانی بڑھانے کے حوالے سے بھی نئے ضوابط منظور کیے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply