سندھ طاس معاہدہ، پاکستان کے لئے اہم کیوں؟

انیس سو ساٹھ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا

انیس سو ساٹھ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا

نیوز ٹائم

زرعی ملک ہونے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریائوں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لئے کافی اہم ہے۔ اس معاہدے کی ضرورت 1948ء میں اس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریائوں کا پانی بند کر دیا۔ دونوں ملک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت Indus basin سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریائوں یعنی، سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے جبکہ بھارت کو مشرقی دریائوں جیسے Ravi ، Beas ، Sutlej کا کنٹرول دے دیا گیا۔ چونکہ مغربی دریائوں میں کئی منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا اس لئے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا  قو مقبوضہ علاقوں سے گزرنے والے دریائوں میں یعنی Sindh ، Chenab اور Jhelum پر 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جبکہ مزید 45 سے 61 dams بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان دریائوں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کئے گئے ہیں۔ حال ہی میں آنے والے خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کر رہا ہے  جس میں 1856 میگا واٹ کا سوالکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔Kishenganga، Rattle، میار، Lower Kalnai، Pakal Dul Hydroelectric Plant اور Wullar Barrage/Tulbul Navigation پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کر رہا ہے  جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہائو کو کنٹرول کرنا بتایا جاتا ہے۔

بھارت، پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ دریائوں کا رخ موڑنے کا اعلان بھی کرتا نظر آتا ہے لیکن کیا ایسا کرنا اتنا آسان ہے۔۔۔۔؟  یہ جاننے کے لیے اس معاہدے کے تحت آنے والے دریائوں کے ماخذ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ دریائے راوی کا منبع بھارت کی ریاست Himachal Pradesh کے ضلع Chamba ا پہاڑی سلسلے ہے جو ‘ R F chulon ‘ کے چھوٹے سے گائوں کے نزدیک ہے۔ اسی طرح Beas River بھی اسی ریاست کے علاقے Beas Kund سے نکلتا ہے اور بھارت کے سرحدی شہر Ferozepur پر دریائے Sutlej میں جا ملتا ہے  یعنی دریائےب Beas پورا کا پورا بھات میں بہتا ہے۔ دریائے Sutlej کی بات کی جائے تو اس کا منبع چین کے علاقے تبت میں ایک جھیل کے قریب ہے جسے بھارت Rakish Til کہا جاتا ہے۔ دریائے Sutlej چین سے بھارتی ریاست Himachal Pradesh سے ہوتا ہوا بھارتی پنجاب اور وہاں سے پاکستان کے ضلع Kasur سے ہوتا ہوا Head Sulemanki سے جا ملتا ہے۔ مشرقی دریائوں سے ہر سال اوسطاً 19 ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستان میں آتا تھا  لیکن سندھ طاس معاہدے سے قبل اور اس کے بعد بھارت نے Ravi اور Sutlej پر کئی Damsاور کنال تعمیر کر کے پانی کے بہائو کو Rajasthan اور دیگر ریاستوں کی جانب موڑ دیا  جس کے بعد ان دریائوں سے سالانہ پانی کی آمد 3 لاکھ ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گئی لیکن یہ کرنا اس لئے آسان تھا کہ مشرقی دریائوں کا منبع اور محل و قوع بھارت کے لیے سازگار تھا۔ مگر پاکستان کے مغربی دریائوں پر صورتحال مختلف ہے، دریائے Sindh ، چین کے علاقے تبت سے نکلتا ہے اور مقبوضہ کشمیر سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

 Jhelum کا آغاز مقبوضہ کشمیر کے پیر پنجال پہاڑی سلسلے میں very Nag Stream سے ہوتا ہے  جہاں سے یہ Srinagar سے ہوتا ہوا Azad Kashmir اور پھر ضلع Jhelum سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے جبکہ Chenab کا منبع بھارتی ریاست Himachal Pradesh میں ہے۔ یہ دریا  Sialkot میں Head Marala کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دریائے Sindh اور دریائےJhelumکے پانی کو روکنا اور اسے بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرف موڑنا آسان نہیں کیونکہ Occupied Kashmir کی valley Himalaya اور Pir Punjal Moutain سلسلے کے درمیان گھری ہوئی ہے اور دریائوں کو موڑنے کے لیے ان پہاڑوں میں 300 کلومیٹر سے زائد سرنگیں بنانی پڑیں گی جس کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہو گا۔ دریائے Chenab جو بھارتی ریاست Himachal Pradesh سے آتا ہے اس کا راستہ پتلا اور گہری گھاٹیوں پر مشتمل ہے اور اس کو موڑنا بھی کافی مشکل ہے البتہ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت ان دریائوں پر مزید بند باندھ کر پانی کا استعمال بڑھا سکتا ہے جس کے باعث پاکستان کو ملنے والے پانی میں کمی ہو گی جبکہ یہ Dams بھارت کو پانی پر کنٹرول کرنے کی مزید صلاحیت دیں گے، یعنی بھارت پانی کا اخراج اپنی مرضی سے کریں گا جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

No comments.

Leave a Reply