سندھ طاس معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے 2 روزہ مذاکرات اسلام آباد میں ختم، کئی معاملات پر مثبت پیشرفت

پاکستان کی وفد کی قیادت مرزا آصف سعید جبکہ بھارتی وفد کی قیادت پی کے سیکسینہ نے کی

پاکستان کی وفد کی قیادت مرزا آصف سعید جبکہ بھارتی وفد کی قیادت پی کے سیکسینہ نے کی

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سندھ طاس معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے 2 روزہ مذاکرات اسلام آباد میں ختم ہو گئے، اس دوران کئی معاملات پر مثبت پیشرفت ہوئی۔ پاکستانی وفد کی قیادت Mirza Asif Saeed جبکہ بھارتی وفد کی قیادت PK Saxena نے کی۔ مذاکرات میں پاکستان نے بھارت کے مجوزہ 3 ڈیموں پر دو ٹوک موقف اپنایا۔ ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے Miyar ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے پر پاکستان کے اعتراضات تسلیم کر لیے اور ڈیزائن کی تبدیلی پر اتفاق کر لیا۔ دوسری جانب Pakal Dul اور Lower Kalnai کے منصوبوں پر بھی بات چیت پر اتفاق کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فریقین نے کل پانی سے متعلق وسائل اور دوطرفہ مسائل کو حل کرنے کے طریقوں پر غور کیا۔ گذشتہ روز پانی و بجلی کے وفاقی وزیر Khawaja Asif  نے بتایا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان عالمی بینک کی سربراہی میں آئندہ ماہ 11 اپریل سے واشنگٹن میں 3 روزہ اعلی سطح کے مذاکرات ہوں گے۔ مجوزہ متنازع پاور منصوبوں پر مذاکرات کے لیے بھارتی رضامندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے وفاقی وزیر Khawaja Asif  نے بتایا کہ امریکا کی مداخلت کی وجہ سے دونوں ممالک اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہوئے۔ Khawaja Asif  کا کہنا تھا کہ بھارت کے متنازع منصوبوں پر احتجاج ہمارا حق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بھارت ان مجوزہ منصوبوں کے ڈیزائن ہمارے ساتھ شیئر کرے۔ خیال رہے کہ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی حدود میں پاکستانی دریائوں پر متنازع منصوبے بنا رہا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بھارت متنازع 330 میگا واٹ کے Kishan Ganga اور 850 میگاواٹ کے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس منصوبوں کے ڈیزائن پاکستان کے ساتھ شیئر کرے۔ جولائی 2016 ء میں پاکستان نے ان متنازع منصوبوں کے پیش نظر اعلی سطح کے وفد کو نئی دہلی کا دورہ کرنے کی تجویز پیش کی،  جسے بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا، جس کے بعد پاکستان نے بھارت کے خلاف عالمی ثالث عدالت سے رجوع کیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کے ان متنازع منصوبوں پر عالمی ثالث عدالت اپنا کردار ادا کرے، جبکہ بھارت ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کا مطالبہ کرتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 1960 میں ہوا تھا، جس کے تحت تین دریائوں بیاس، راوی اور ستلج کا پانی بھارت جبکہ سندھ، چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کا حق دیا گیا تھا،  معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کا پانی نہیں روک سکتے اور نہ ہی ان دریائوں پر متنازع منصوبے بنا سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply