تیئیس مارچ، پاکستان کی تاریخ کا اہم دن

تیئس مارچ 1940ء پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے

تیئس مارچ 1940ء پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے

نیوز ٹائم

پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس دن برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت (مسلم لیگ) نے Quaid-e-Azam Mohammad Ali کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے 27ویں  سالانہ اجلاس (منعقدہ لاہور) میں ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ 1940 میں مسلم لیگ نے اسی قرارداد کو بنیاد بنا کر برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک جدا وطن کے حصول کی جو تحریک شروع کی تھی، وہ صرف 7 برس کے مختصر عرصہ میں کامیاب ہوئی تھی۔ دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے، جہاں مسلمان 800 سال حکمران رہے لیکن نہ تو انہوں نے ہندووں کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی، یہی وجہ ہے کہ 800 سال حکومت کرنے کے باوجود وہ یہاں اقلیت میں رہے۔ قرارداد پاکستان ہی دراصل وہ مطالبہ ہے، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا اور 23 مارچ کا یہ دن ہر سال اہل پاکستان کو اسی جذبے کی یاد دلاتا ہے، جو قیام پاکستان کا باعث بنا تھا۔ 23 مارچ 1940ء پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے اس روز برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے اپنے Quaid-e-Azam Mohammad Ali کی قیادت میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مسلمانوں کی آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لیے قرارداد منظور کی، جس کو قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ 1941ء میں مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی۔ اس میں واضح کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جو اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں،  ان کا مذہب، عقیدہ اور رسم و رواج الگ ہیں اور وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی دن 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین بھی منظور ہوا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ متفقہ رائے تھی کہ کوئی دوسرا دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس تاریخی اجتماع کا آغاز 22 مارچ 1940ء کو ہوا تھا اور Quaid-e-Azam Mohammad Ali نے اس دن اپنی اڑھائی گھنٹے کی تقریر میں فرمایا کہ مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں اور سماجی عادات سے تعلق رکھتے ہیں، جو آپس میں شادی کر سکتے ہیں، نہ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں۔ آج سے ایک ہزار سال قبل البیرونی نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب، کتاب الہند میں لکھا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں، وہ غیر ملکیوں کو، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، ملیچھ کے نام سے پکارتے ہیں اور ان سے تعلقات رکھنے کی سخت ممانعت کرتے ہیں۔

اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے Begum Maulana Mohammad Ali Jauhar نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا تھا  اور All India Muslim League نے 1941ء میں 23  مارچ کے دن سے ہی یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا۔  اس وقت قرارداد میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا مگر بعد میں Quaid-e-Azam Mohammad Ali نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان ہی کہا تھا۔ اس اجلاس سے 4 روز پیشتر لاہور میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا۔  خاکساروں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس نکالا اور حکومت پنجاب نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر کے متعدد خاکساروں کو شہید کر دیا تھا، اس وجہ سے شہر میں کافی کشیدگی پھیل چکی تھی۔ بعض لوگوں نے Quaid-e-Azam Mohammad Ali کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا  لیکن Quaid-e-Azam Mohammad Ali نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔Quaid-e-Azam Mohammad Ali کی اس جلسے میں تاریخی تقریر سے اگلے روز یعنی 23 مارچ 1940 کو Sher-e-Banglal  Maulvi Fazal-u- Haq نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی، جسے قرارداد لاہور کہا گیا تھا، جو آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہو گا، جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی نہ کی جائے اور ضروری علاقائی رد و بدل نہ کیا جائے اور یہ کہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی (شمال مغربی اور شمال مشرقی) علاقوں کو خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے۔ جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں اور یہ کہ ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح و مشورے سے دستور میں مناسب و موثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

Quaid-e-Azam Mohammad Ali نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، 8 مارچ 1944 ء کو کہا تھا پاکستان تو اسی دن وجود میں آ گیا تھا، جس دن ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ برصغیر میں مسلمان اور ہندو لگ بھگ ہزار سال ساتھ رہے، مسلمانوں نے حکمرانی کی اور عمومی طور پر ہندووں کے ساتھ انتہائی اچھا رویہ رکھا۔ Renowned Indian historian Dr. Tara Chand اپنی تصنیف تاریخ ہند میں رقم طراز ہیں کہ مقامی آبادی کو اس (Mohammed bin Qasim) نے ایک نیا ریاستی نظام اور فلاحی در و بست عطا کیا، اس سے وہ Mohammed bin Qasim کی ایسی گرویدہ ہوئی کہ اسے لکھ داتا کہہ کر پکارنے لگی اور اس کی (Mohammed bin Qasim) کی پرستش کے لیے سندھ میں مندر وجود میں آ گئے۔ یہی Dr. Tara Chand اپنی ایک اور تصنیف ہندوستانی تہذیب پر مسلمانوں کا اثر میں لکھتے ہیں کہ اسلام کے اثر سے ہندو قوم میں مبلغوں کا ایک گروہ پیدا ہوا اور انہوں نے اس کام کو اپنا نصب العین سمجھا، جو کام مسلم صوفی کر رہے تھے۔ لیکن ان 10 صدیوں کے دوران میں، ہندو کو جب بھی موقع ملا، اس نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی اور ہمیشہ مسلمانوں کو حملہ آور اور اجنبی سمجھا۔ Shiva Ji سے لے کر Mahatma Gandhi اور Bal Thackeray تک، یہ ہندو قائدین ایک ہی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ انگریزوں کی آمد کے بعد یہ سلسلہ زیادہ تیز ہوا اور مختلف ادوار میں ہندووں کی جانب سے مذہبی تحریکیں چلائی گئیں،

جن میں سے چند چیدہ، چیدہ تحریکوں کا نام اور کام کچھ یوں تھا۔

آریہ سماج تحریک:

یہ تحریک 1875ء میں انگریزوں کے زیر سایہ پروان چڑھی۔ ایک سخت گیر اور ہندو انتہا پسندانہ تحریک تھی، جو ہندووں کو غیر ہندووں سے الگ ہو کر اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتی تھی، اس بنا پر ہندو قوم کے لوگ مسلمانوں سے دور ہوتے چلے گئے۔

گائو رکھشا تحریک:

یہ تحریک 1882ء میں شروع ہوئی۔ Arya Samaj movement اور Gau Raksha Movement ، دونوں ہی ممبئی کے رہنے والے Swamy Dayanand Saraswati نے شروع کی تھیں، اس تحریک میں Gau Mata کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تعصب پھیلایا گیا، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ Gau Raksha Movement مختلف اشکال، Gau Mata اور Gaushala  کے ناموں سے اب بھی جاری ہے۔ بھارت کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں پر گائے کی قربانی کی پابندی ہے اور مسلمان Eid al Adha پر بھی گائے کی قربانی نہیں کر سکتے۔

شدھی تحریک:

یہ تحریک بھی متعصب Swamy Dayanand Saraswati اور اس کے شاگرد Swami Sharadhananda نے 1920ء میں شروع کی۔ اس تحریک کے تحت غیر ہندووں، بالخصوص مسلمانوں کو جبری طور پر اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندو مت میں داخل کیا جاتا تھا۔ ہندی تحریک:

یہ تحریک بنارس کے ہندو لیڈروں نے 1847ء میں شروع کی تھی۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ اردو زبان سے قبل برصغیر میں ہندی یا پھر فارسی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی تھی لیکن اردو زبان وجود میں آئی تو اسے بے انتہا پذیرائی ملی۔ اردو کے تیزی سے فروغ اور عام مقبولیت کے باعث ہندوستانی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اردو کی وجہ سے ہندی زبان کی اہمیت کم ہو گئی۔ اسی لیے متعصب ہندووں نے ہندی زبان کا قضیہ کھڑا کر دیا اور اردو کی جگہ ہندی زبان کو فروغ دینے کی تحریک آغاز کی۔ اپنی زبان کی حفاظت کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن متعصب محرکین نے اس تحریک کی آڑ میں اردو رسم الخط پر بھی پابندی لگوانے کی کوشش کی اور اسے Diona Garry رسم الخط میں لکھنے کی تحریک چلائی۔ متعصبین نے برطانوی حکومت کو درخواست دی کہ ہندوستان میں ہندی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔

راشٹریہ سیوک سنگھ:

اس تنظیم کی بنیاد 1925ء میں رکھی گئی اور اس کے بانی ڈاکٹر Dr. Keshav Ram تھے۔ بظاہر یہ ایک سماجی تنظیم اور خدمت خلق کی تحریک ہے لیکن دراصل یہ ایک متعصب، متشدد اور مسلح تنظیم ہے۔ ورزش اور کسرت کے نام پر ہندو نوجوانوں کو تربیت دے کر لاٹھیوں سے مسلح کیا جاتا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران آر ایس ایس کے مسلح جتھوں نے مسلمانوں کی آبادیوں پر حملوں میں حصہ لیا۔ بدنام زمانہ متعصب انتہا پسند ہندو لیڈر لال کرشن ایڈوانی ( Advani  L.K.)  نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسی تنظیم سے کیا، اس نے Quaid-e- Azam پر قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا، جس کی ایف آئی آر حیدرآباد سندھ میں کاٹی گئی تھی۔ Rashtriya Seok Singh ، Sangh Parivar ، اور اس قسم کی متعدد ہندو انتہا پسند، دہشت گرد تنظیمیں آج بھی بھارت میں موجود ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔ سانحہ بابری مسجد، سانحہ گجرات، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، ممبئی حملے اور دیگر میں مبینہ طور پر یہی انتہا پسند تنظیمیں ملوث ہیں۔ دوسری جانب انگریزوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ انہوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی ہے، اس لیے منطقی طور پر ان کو مخالفت کا سامنا بھی مسلمانوں کی جانب سے زیادہ تھا۔ اگرچہ ابتدا میں ہندووں نے بھی انگریزوں کے خلاف تحریک میں حصہ لیا لیکن بعد میں انگریزوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندووں کی زیادہ پذیرائی کرنا شروع کر دی، ان کو ہر معاملے میں مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی، خواہ وہ تعلیم کا میدان ہو، تجارت کا شعبہ ہو یا سیاست، ہر جگہ مسلمانوں کو دبایا جاتا اور ہندووں کو شہ دی جاتی۔ دو قومی نظریے نے اسی رویے کے نتیجے میں جنم لیا۔

قرارداد کا تاریخی پس منظر:

قرارداد لاہور سے قبل Quaid-e- Azam Muhammad Ali Jinnahنے 9 مارچ 1940ء کو انگریزی ہفتہ روزہ ٹائم اینڈ ٹائڈ میں ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں لکھا تھا کہ ہندوستان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے، وہ اپنے اس مقصد کا اعلان کر چکا ہے کہ ہندوستان کو جلد از جلد دولت مشترکہ کے دوسرے ارکان کے برابر آزادی دی جائے گی۔ اس کے لیے وہ ہندوستان میں اسی قسم کا جمہوری آئین نافذ کرنا چاہتا ہے، جس کا اسے تجربہ ہے اور وہ اس کو سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ آئین کی اس طرز کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو سیاسی جماعت انتخابات میں کامیاب ہو، اسی کے ہاتھ میں عنان حکومت ہو۔ بظاہریہ صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن ہندوستان کے مخصوص اور غیر معمولی حالات کو دیکھ کر میں اسے نہایت غیر مناسب سمجھتا ہوں۔ ہندوستان میں حکومت کے اتنے طویل تجربے کے باوجود برطانیہ یہاں کے حالات سے بہت اچھی طرح واقف نہیں ہو سکی، حتی کہ پارلیمنٹ کے متعدد ارکان بھی بے خبر ہیں۔ یہ بات، برطانوی حکومت کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ برطانیہ کا پارلیمانی آئین، ہندوستان کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ برطانوی قوم صحیح معنوں میں ایک، یک رنگ اور متحد قوم ہے اور وہاں جس طرز کی جمہوریت رائج ہے، وہ اسی قومی یک رنگی اور اتحاد کی بنیاد پر قائم ہے اور رہے گی مگر ہندوستان میں حالات بہت مختلف ہیں کیونکہ یہاں قومی یک رنگی مفقود ہے، لہذا برطانوی طرز کی جمہوریت، اس ملک کے لیے بالکل موزوں نہیں۔ ہندوستان کی آئینی الجھنوں کا بنیادی سبب بھی یہی ہے مگر یہاں ناموزوں اور ناموافق طرز حکومت کے قیام پر اصرار کیا جا رہا ہے۔

No comments.

Leave a Reply