سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی تیسری سماعت، پہلے عبوری حکم تھا، اب فیصلہ ہو گا

آج کی کارروائی میں حسین، حسن اور مریم نواز کے وکیل کی جانب سے بھی دلائل دیئے جانے کا امکان ہے

آج کی کارروائی میں حسین، حسن اور مریم نواز کے وکیل کی جانب سے بھی دلائل دیئے جانے کا امکان ہے

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پاناما عملدرآمد کیس کی تیسری سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے کہ پہلے عبوری حکم تھا، اب فیصلہ ہو گا  جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیر اعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں، ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا کیس میں کوئی شواہد ہیں جو وزیر اعظم کو معاملے سے منسلک کرتے ہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ پر پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا

کہ عبوری فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا، جے آئی ٹی نے انہیں گھسیٹنے کی کوشش کی۔ آج ہونے والی سماعت میں وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے کب اور کس نے ادائیگی کی؟

فنڈز سعودی عرب، دبئی یا قطر میں تھے، سوال یہ ہے کہ فنڈر کیسے لندن پہنچے، میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، یہ جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی۔ سماعت میں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے معلوم کرایا کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل مالک ہیں، باہمی قانونی معاونت سے بھی یہی بات ثابت ہوئی۔

وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ شریف فیملی نے گوشواروں کی صورت میں آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا دی ہیں،  وزیر اعظم سے کسی اثاثے کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں۔ جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی، وزیر اعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیداد نہ چھپائی نہ وزیر اعظم کی کوئی بے نامی جائیداد ہے۔ دوران سماعت وکیل خواجہ حارث نے وزیر اعظم کا جے آئی ٹی کو دیا گیا بیان بھی پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے دلائل کے دوران نیب سیکشن کی شق 5 اے کا حوالہ بھی دیا جس کی رو سے نیب قوانین کے مطابق شوہر یا والد کو بیوی، بچوں کے نام اثاثوں کاذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

سماعت میں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ دوسرے کے گھر کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتے؟ زیر استعمال ہونا اور بات ہے، اثاثہ سے فائدہ اٹھانا الگ بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں، اس کیس میں سوال 1993 ء سے اثاثے زیر استعمال ہونے کا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں،

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیر اعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی ہے جس میں قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا اور اس میں وزیر اعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آ چکا ہے، ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں کہ وزیر اعظم لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈ کہاں سے آئے، کہاں گئے؟ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ سب کی منی ٹریل دیں گے مگر انہوں نے ابھی تک یہ جواب نہیں دیا۔

خواجہ حارث کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیر اعظم کے ایما پر کسی نے پراپرٹی خریدی، بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ آج کی کارروائی میں حسین، حسن اور مریم نواز کے وکیل کی جانب سے بھی دلائل دیئے جانے کا امکان ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے عملدرآمد بنچ نے گزشتہ روز سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ وزیر اعظم فلیٹس میں جاتے رہتے ہیں اور ملکیت کا علم نہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ منی ٹریل موجود ہے تو پھر وہ دی کیوں نہیں گئی؟ وزیر اعظم ثبوت دینے کے بیان سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ عدالت جے آئی ٹی کی رائے پر نہیں، رپورٹ میں دیئے گئے مواد پر فیصلہ کرے گی۔

No comments.

Leave a Reply