دہشت گردی کی سالانہ رپورٹ : دنیا بھر 2015 ء کے مقابلے میں 2016 ء میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 9 فیصد کمی ہوئی

دنیا بھر 2015 ء کے مقابلے میں 2016 ء میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 9 فیصد کمی ہوئی

دنیا بھر 2015 ء کے مقابلے میں 2016 ء میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 9 فیصد کمی ہوئی

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

بدھ کے روز جاری ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عالمی دہشت گردی پر جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر 2015 ء کے مقابلے میں 2016 ء میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 9 فیصد کمی ہوئی جبکہ ان سے منسلک ہلاکتوں کی تعداد 13 فیصد تک گر گئی۔ پچھلے سال دہشت گرد حملوں اور دہشت گردی سے منسلک ہلاکتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے  جس کا ایک سبب دہشت گرد گروپ ISIL طاقت میں کمی اور ایران کی ریاستی سرپرستی کے نیٹ ورک میں کام کرنے والے گروپس کی صلاحیتوں میں تخفیف ہے۔ لیکن امریکی عہدے داروں نے خبردار کیا کہ ISIL 2016 ء میں بھی بدستور عالمی سطح پر سب سے زیادہ صلاحیت رکھنے والا دہشت گرد گروپ رہا اور 2015 ء کے مقابلے میں اس نے عراق میں 20 فیصد زیادہ حملے کیے۔ امریکی عہدے داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ ISIL، لیبیا، صومالیہ، یمن، شمال مشرقی نائیجریا کے ان علاقوں میں اپنے کارندوں کے ذریعے مفاد اٹھاتا رہا جہاں حکومت کا کنڑول نہیں ہے اور وہ مصر کے کچھ حصوں، جزیرہ نما سینائی اور افغانستان، پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی متحرک رہا۔ محکمہ خارجہ کے دہشت گردی امور سے متعلق عہدے دار جسٹن سائبریل کا کہنا ہے کہ 2016 ء میں کسی بھی دوسرے دہشت گرد گروپ کے مقابلے میں حملوں اور ہلاکتوں کی زیادہ ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ پر عائد ہوتی ہے۔ اس گروپ کی جانب سے 2016 ء میں عراق اور شام میں اپنے زیر قبضہ علاقوں سے باہر نکل کر حملوں میں اضافہ اس کی دہشت گردی کی مہم کا اہم حصہ تھا۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک علاقائی گروپوں نے افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں حکومتی عمل دخل میں کمی کی وجہ سے فائدہ اٹھایا ہے،  اور یہ تنظیم آج بھی دنیا بھر میں ایک بڑا خطرہ ہے۔ رپورٹ میں ایران کی جانب سے، عراق اور لبنان میں حزب اللہ جیسے شیعہ دہشت گرد گروپوں کے لئے حمایت پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے،  جن کے بارے میں دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور یہ بہت ہی مہارت سے کام کرنے والے گروپ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، ایران کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے کارکن اور جنگجو شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو تقویت دینے کے سرگرم رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ کے دہشت گردی سے متعلق شعبے نے کہا ہے کہ پچھلے سال 11 ہزار سے زیادہ دہشت گرد حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 25 ہزار 600 ہلاکتیں ہوئیں۔ 100 سے زیادہ ملک دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے لیکن زیادہ حملوں کا ہدف دنیا کے 5 ملک رہے جن میں عراق، افغانستان، بھارت، پاکستان اور فلپائن شامل ہیں۔

No comments.

Leave a Reply