ترکی کے صدر اردگان کا قطر اور خلیجی ممالک تنازع میں ثالثی کردار

ترکی کے صدر اردگان

ترکی کے صدر اردگان

نیوز ٹائم

کویت، پاکستان، مصر اور امریکہ کے بعد اب ترکی، قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر چکا ہے۔ ترکی میں کابینہ میں ہونے والی تبدیلی کے بعد صدر اردگان نے پہلی فرصت میں خطے کے ممالک کا دورہ شروع کیا۔ دو روزہ سعودی عرب، کویت اور قطر کے دورے کے پہلے مرحلے پر جدہ روانگی سے قبل استنبول کے Ataturk ہوائی اڈے پر بیان دیتے ہوئے  صدر اردگان نے اسرائیل کی جانب سے مسجدِ اقصی میں عبادت پر پابندی لگانے سے متعلق شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ صدر اردگان نے کہا ہے کہ القدس میں حرم الشریف تمام عالمِ اسلام کے وقار، عزت و ناموس اور مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ القدس میں جاری کشیدگی کو فوری طور پر ختم کروانے کیلئے ترکی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے اسرائیل سے بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بحران کو طول دینے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ انہوں نے قطر بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی ممالک کے علاوہ دیگر اہم ممالک اس مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کریں۔

صدر اردگان جب جدہ شاہ عبد العزیز انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچے تو شاہی ٹرمینل پر سعودی عرب کے King Salman bin Abdulaziz نے خود استقبال کیا۔ صدر اردگان کے ہمراہ ان کی اہلیہ Emine Erdogan ، وزیر خارجہ Mevlüt Çavuşoğlu ، وزیر اقتصادیات Nihat Zeybekci ، وزیر توانائی اور قدرتی وسائل Berat Albayrak ،  وزیر قومی دفاع  Nurettin Canikli ، مسلح افواج کے سربراہ General Hulusi AKAR اور خفیہ سروس کے سربراہ Hakan Fidan بھی تھے۔ دونوں ممالک کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں رہنمائوں کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی اور علاقائی صورتِ حال پر تفصیلی بات چیت کرنے کے علاوہ قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان بحران کو دور کرنے کے مختلف پہلوئوں پر غور کیا گیا۔ صدر اردگان نے سعودی عرب کے نئے ولی عہد پرنس Mohammad Bin Salman سے بھی ملاقات کی۔ اس کے بعد ترک وفد کویت روانہ ہو گیا۔

کویت پہنچنے پر Amir of Kuwait Sabah Al-Ahmad Al-Jaber Al-Sabah نے صدر اردگان اور ان کے ہمراہ وفد کا استقبال کیا۔ اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعاون کرتے ہوئے اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

کویت کا دورہ مکمل کرنے کے بعد صدر اردگان قطر روانہ ہو گئے جہاں قطر کے امیر Sheikh Tamim bin Hamad Al Thani نے حماد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر استقبال کیا۔ بعد میں دونوں رہنمائوں نے ون ٹو ون طویل ملاقات کی اور پھر دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات منعقد ہوئے۔ مذکرات میں علاقے کی تازہ ترین صورتِ حال پر غور کرنے کے علاوہ اس بحران پر قابو پانے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ صدر اردگان کو قطر میں جب سے قطر بحران پیدا ہوا ہے بڑی مقبولیت حاصل ہو گئی ہے،  قطر کے میڈیا نے صدر اردگان کے ثالثی کے کردار کو سراہا اور صدر اردگان کی دل کھول کر تعریف کی ہے،  قطر کے تمام ہی اخبارات نے صدر اردگان کے بارے میں خصوصی مضامین شائع کئے۔ صدر اردگان قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان تنازع ختم کروانے کے لئے شروع دن ہی سے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر زور دیا ہے کہ وہ ایک ایسا موقف اختیار کریں جو امن اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہو،  ورنہ تنازعات سے تنازعات ہی پیدا ہوتے ہیں، جن کے نتائج کسی کو معلوم نہیں ہوتے۔ ترکی کے قطر کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات قائم چلے آ رہے ہیں بلکہ قطر کو ترکی کے ایک حلیف ملک کی حیثیت بھی حاصل ہے  اور اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر اردگان اپنے اس دورے کے دوران اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ ترکی پہلے ہی قطر کی زمینی ناکہ بندی کو انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے۔ قطر اور ترکی کئی برسوں سے مضبوط اقتصادی روابط رکھتے ہیں۔ تنازع کا ایک نکتہ قطر میں ترک فوجیوں کی موجودگی اور اس کے فوجی اڈے کو ختم کرنا ہے تاہم ترکی خلیجی ممالک کو اپنے اس مطالبے سے باز رکھنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور خلیجی ممالک نے اپنے اس مطالبے سے دستبرداری کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ قطر میں ترکی کا فوجی اڈہ قطر اور خطے میں سیکیورٹی کا ضامن ہے۔  ترکی نے اپنے مزید فوجی قطر روانہ کئے ہیں اور قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے تاہم انقرہ کے مطابق یہ ترک فوجی قطر کے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ دنوں میں ترکی اور قطر کے فوجی مشترکہ مشقیں بھی کریں گے، جن میں ممکنہ طور پر امریکی دستے بھی شریک ہوں گے۔

قبل ازیں کویت کے امیر، متحدہ عرب امارات، امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے اعلی سفارتکار بھی اس بحران کے خاتمے کی کوششیں کر چکے ہیں تاہم انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ 5 جون کو سعودی عرب سمیت 6 عرب ممالک نے جن میں مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن شامل تھے، قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ عرب فوجی اتحاد سے بھی خارج کر دیا تھا۔ ان ملکوں نے قطر کے ساتھ ہر قسم کے زمینی، فضائی اور سمندری رابطے بھی معطل کر دیئے اور سعودی عرب نے فوری طور پر قطر کو 13 مطالبات پیش کئے جن میں ہرجانہ ادا کرنے، مطلوبہ افراد کو حوالے کرنے، شدت پسند تنظیموں کی مالی مدد بند کرنے، حزبِ اختلاف کی ان شخصیات کے متعلق بھی مکمل معلومات فراہم کرنے جن کی ماضی میں قطری حکومت مدد کرتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عربی ٹی وی چینل الجزیرہ اور اس کے تمام ذیلی اداروں، شاخوں اور دیگر نشریاتی اداروں کو بند کرنے،  ایران میں اپنی تمام سفارتی تنصیبات بند کرنے اور صرف امریکہ کی طرح محدود پیمانے پر تجارتی تعلقات قائم رکھنے کا کہا گیا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے فورا بعد قطری حکومت نے الزام عائد کیا کہ یہ ممالک قطر کو اپنا باج گزار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو دوحہ حکومت کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ 6 ممالک کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ کے بعد ترکی، قطر کو فضا کے راستے خوراک اور دیگر سامان فراہم کرتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی نے قطر کو مال بردار بحری جہاز بھی روانہ کئے تاکہ قطر ناکہ بندی کو ختم کیا جا سکے۔ صدر رجب طیب اردگان نے بارہا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قطر کے معاملے میں ایک نہایت بھیانک غلطی کی گئی ہے۔ ایک قوم کو ہر طرح سے تنہا کرنے کے اقدامات غیر انسانی اور اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔ یہ تو یوں ہے کہ قطر کے لئے سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔   ان کا مزید کہنا تھا، قطر نے ترکی کے ساتھ مل کر دولتِ اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیم کے خلاف انتہائی ٹھوس موقف اپنا رکھا ہے۔ قطر کو نشانہ بنانے کی کوشش کسی کے مفاد میں نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی ان خلیجی ممالک کو یکجا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply