برما: چار لاکھ برمی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرہ، آنگ سان پر عالمی دبائو میں اضافہ

گذشتہ 11 روز کے دوران میں ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان جانیں بچا کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر گئے ہیں

گذشتہ 11 روز کے دوران میں ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان جانیں بچا کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر گئے ہیں

ینگون ۔۔۔ نیوز ٹائم

 اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ Rakhine میں برفی فوج نے 4 لاکھ رونگیا مسلمانوں کو محصور کر رکھا ہے جس سے ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہے۔ خوارک پانی اور ادویات کی قلت کے باعث لوگ موت کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ برمی فوج کی جانب سے مسلمانوں کے گھر نذر آتش کرنے، زندہ جلانے اور سرقلم کرنے جیسی وحشیانہ کارروائیوں کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 25 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ میانمر کی لیڈر اور وزیر خارجہ Aung San Suu Kyi پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریاستی تشدد کے استعمال کے بعد دبائو میں اضافہ ہو گیا ہے۔ میانمر کی ریاست Rakhine سے گذشتہ 11 روز کے دوران میں ایک لاکھ 25 ہزار   سے زیادہ روہنگیا مسلمان جانیں بچا کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔ تین مسلم اکثریتی ممالک انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان خاص طور پر Aung San Suu Kyi پر دبائو ڈال رہے ہیں اور وہ ان سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمر کی سیکیورٹی فورسز اور انتہا پسند بدھ متوں کے تشدد آمیز مظالم بند کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انڈویشی وزیر خارجہ  Retno Marsudi نے گزشتہ روز نوبل امن انعام یافتہ Aung San Suu Kyi اور میانمر آرمی کے سربراہ Min Aung Hlaing سے ملاقات کی تھی اور ان سے خون ریزی رکوانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے میانمر کے دارالحکومت نے Naypyidaw میں ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ  سیکیورٹی حکام کو فوری طور پر ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ کرنا چاہیے اور متاثرین کو مختصر اور طویل مدت کے لیے انسانی اور ترقیاتی امدا د مہیا کرنی چاہیے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اسلامی تعاون تنطیم پر زور دیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو رکوانے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کرے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دنیا کی سب سے کم عمر نوبل امن انعام یافتہ Malala Yousuf Zai نے Aung San Suu Kyi سے مطالبہ کیا ہے  کہ وہ روہنگیا اقلیت کے خلاف شرم ناک سلوک کی مذمت کریں۔ انھوں نے سوموار کو ایک بیان میں کہا کہ دنیا ابھی تک برمی لیڈر سے اس معاملے پر کچھ سننے کی منتظر ہے۔ میانمر کی مغربی ریاست Rakhine میں 25 اگست کو تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے گذشتہ 11 روز میں ایک لاکھ 25 ہزار  کے لگ بھگ افراد سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیر اعظم Hasina Wajid نے مہاجرین کو روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ Rakhine سے تشدد سے بچ کر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور بنگلہ دیش میں مہاجرین کے لیے قائم کیمپ بھر گئے ہیں اور ان میں مزید افراد کے سمانے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ میانمر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کا یہ نیا سلسلہ مبینہ طور پر روہنگیا مزاحمت کاروں کے اپنے دفاع میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نسلی اقلیت کے خلاف پرتشدد مظالم کو رکوانے کے لیے یہ حملے کر رہے ہیں  لیکن اس کے ردعمل میں میانمر کی سیکیورٹی فورسز نے ایک بڑی کارروائی شروع کر دی تھی اور اس کے بہ قول اس کا مقصد مزاحمت کاروں کی تطہیر تھا۔ بنگلہ دیش پہنچنے والے مہاجرین نے بتایا ہے کہ ان کے مکانوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے اور روہنگیا وہاں زندہ دفن ہو رہے ہیں۔ میانمر کے سیکیورٹی حکام اور روہنگیا مزاحمت کار دونوں ایک دوسرے پر تشدد کو ہوا دینے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ فوج نے یہ دعوی کیا ہے کہ لڑائی میں 400 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ان میں زیادہ تر مزاحمت کار تھے۔

No comments.

Leave a Reply