روہنگیا مسلمان کون ہیں؟ رپورٹ

برما نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی اور لاکھ رونگیا مسلمان

برما نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی اور لاکھ رونگیا مسلمان

نیوز ٹائم

روہنگیا ایک نسلی مسلمان برادری ہے جو صدیوں سے Myanmar میں اکثریتی بدھ برادری کے ساتھ رہتی چلی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت میانمار میں تقریبا 11 لاکھ روہنگیا افراد بستے ہیں۔ ان کی زبان روہنگیا یا Rohinga کہلاتی ہے جو میانمار بھر میں عام طور پر بولی جانے والی زبانوں سے یکسر مختلف ہے۔ روہنگیا برادری کو ملک میں آباد دیگر 135 نسلی گروپوں جیسی سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہے اور انہیں 1982 ء سے میانمار میں شہریت کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ یوں ایک طرح سے یہ برادری بے وطنی کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ برادری میانمار کی ساحلی پٹی Rakhine میں رہتی ہے اور سرکاری اجازت کے بغیر یہ لوگ اس علاقے سے باہر نہیں نکل سکتے۔  روہنگیا میانمار کی غریب ترین برادریوں میں سے ایک ہے اور وہ زیادہ تر کیمپوں میں گزارہ کر رہے ہیں جہاں انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ ان کے خلاف حالیہ طور پر جاری تشدد اور ظلم و ستم کے باعث اس برادری کے لاکھوں افراد گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران خشکی یا پانی کے راستے قریبی ہمسایہ ممالک کی جانب فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ روہنگیا لوگ 12 ویں صدی سے میانمار میں رہتے آئے ہیں۔

1824 ء سے 1948 ء تک جاری رہنے والے برطانوی نوآبادیاتی دور میں بھارت اور موجودہ بنگلہ دیش سے ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں نے برما کی جانب نقل مکانی اختیار کی جسے اب میانمار کہا جاتا ہے۔ اس وقت چونکہ برطانوی تسلط میں برما ہندوستان کا ایک صوبہ تھا اس لئے اس نقل مکانی کو ملک کا اندرونی اقدام ہی قرار دیا گیا۔ تاہم مزدوروں کی اس آمد کو مقامی اکثریتی آبادی نے کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔1948 میں برما کو آزادی ملنے کے بعد وہاں کی حکومت نے ان کی نقل مکانی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یوں میانمار کے زیادہ تر لوگ روہنگیا کو بنگالی سمجھنے لگے۔ اسی وقت حکومت نے یونین سیٹزن ایکٹ کے نام سے ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت ان نسلی برادریوں کا تعین کر دیا گیا جنہیں ملکی شہریت کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق Yale University کے بین الاقوامی کلینک کی طرف سے 2015 ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان میں روہنگیا برادری کو شامل نہیں کیا گیا  اور اسی وجہ سے روہنگیا کے بیشتر افراد اب تک شہریت سے محروم ہیں۔ تاہم اس ایکٹ کے تحت روہنگیا کے ایسے افراد کو شناختی کارڈ جاری ہونے کا حق دیا گیا جو کم از کم دو نسلوں سے میانمار میں آباد ہیں۔ یوں شروع میں اس برادری کے بہت سے افراد کو شناختی کارڈ اور شہریت بھی دے دی گئی جس کی باعث روہنگیا کے متعدد افراد منتخب ہو کر ملکی پارلیمان میں بھی پہنچے۔ 1962 میں مینمار میں فوجی بغاوت کے بعد روہنگیا برادری کی صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی۔ نئی فوجی حکومت نے تمام افراد کو قومی رجسٹریشن کارڈ حاصل کرنے کا پابند کر دیا۔ تاہم روہنگیا افراد کو غیر ملکیوں کی حیثیت سے رجسٹریشن کارڈ جاری کئے گئے جن کے باعث ان کے لئے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کا حق محدود ہو کر رہ گیا۔

پھر 1982 ء میں شہریت کے ایک نئے قانون کی منظوری دی گئی جس کے باعث روہنگیا موثر طور پر بے وطنی کا شکار ہو گئے۔ اس قانون میں شہریت کو 3 درجوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بنیادی شہریت کے حصول کیلئے لازمی قرار دیا گیا کہ متعلقہ شخص کا خاندان 1948 ء سے قبل میانمار میں آباد تھا  اور وہ قومی زبانوں میں سے کوئی ایک روانی سے بول سکتا ہو۔ روہنگیا برادری کے بیشتر افراد ان شرائط پر پورا نہیں اترتے۔اس کے نتیجے میں اس برادری کے افراد کیلئے قانون تک رسائی، حصول تعلیم، ملازمت، سفر، شادی کرنے،  اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے اور صحت عامہ کی سہولتیں حاصل کرنے کے حقوق انتہائی طور پر محدود ہو گئے۔ انہیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔1970 کی دہائی سے صوبے Rakhine میں روہنگیا برادری کے خلاف مسلسل تادیبی کارروائیاں کی گئیں  جن کے باعث لاکھوں روہنگیا لوگ بھاگ کر بنگلہ دیش، ملائشیا، تھائی لینڈ اور دیگر جنوب مشرقی ریاستوں کی طرف چلے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف میانمار کی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کارروائیوں میں عصمت دری، تشدد، لوٹ مار اور قتل کے بے شمار واقعات ہوئے۔ نومبر 2016 ء میں اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے میانمار کی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے نسلی خاتمے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس سے قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپریل 2013 ء میں ایسا ہی الزام لگایا تھا۔ تاہم مینمار کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔

حال ہی میں میانمار کی حکومت نے روہنگیا پر الزام عائد کیا کہ روہنگیا سالویشن آرمی ARSA نامی عسکری تنظیم نے پویس چوکیوں پر حملہ کیا جس کے جواب میں میانمار کی فوج نے Rakhine میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی جس میں بہت سے مرد، عورتیں اور بچے ہلاک ہو گئے۔ اس تشدد کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق 50,000 سے زائد روہنگیا مسلمان وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے جبکہ کئی ہزار لوگ میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سینکڑوں افراد نے بھاگ کر بنگلہ دیش جانے کی کوشش کی لیکن بنگلہ دیش کی فوج نے انہیں یا تو گرفتار کر لیا یا پھر واپس میانمار میں دھکیل دیا۔ میانمار کی نوبل انعام یافتہ معروف رہنما Aung Sun Suu Kyi بھی روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں بات کرنے سے مسلسل انکار کر رہی ہیں۔ ان کی حکومت روہنگیا کو میانمار کے ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور Rakhine میں ہونے والے پرتشدد واقعات کیلئے بھی انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ Aung Sun Suu Kyi کا ملکی افواج پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ تاہم فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کیلئے طاقت کے استعمال کی مذمت نہ کرنے پر ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے روہنگیا برادری کو دنیا بھر میں تشدد اور ظلم و ستم کا شکار ہونے والی سب سے بڑی برادری قرار دیا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل António Guterres نے کہا ہے Rakhine میں فوج کی طرف سے کئے جانے والی پرتشدد کارروائیوں پر انہیں شدید تشویش ہے۔

No comments.

Leave a Reply