روہنگیا مسلمان، عالمی بے ضمیری کا نیا نشان

روہنگیا مسلمان، عالمی بے ضمیری کا نیا نشان

روہنگیا مسلمان، عالمی بے ضمیری کا نیا نشان

نیوز ٹائم

رنگ و نسل، زبان و مذہب کی تفریق اور عمر کے تفاوت سے قطعِ نظر ایک احساس دنیا کے مختلف برِاعظموں پر آباد لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہ سفاکی، بربریت، وحشیانہ پن اور غیر انسانی رویوں سے مغلوب ہوتی جا رہی ہے اور اس لیے ناقابلِ برداشت بھی۔ یہ احساس اس لیے غلط نہیں ہے کہ روز مرہ تجربات و مشاہدات حقیقی صورتِ حال کے اسی نقشے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یقینا یہ نہایت ہول ناک اور بہت مایوس کن بات ہے۔ اس لیے کہ دوسرے لفظوں میں یہ انسانی تہذیب و تمدن کے معکوس سفر کا منظرنامہ ہے۔ گویا انسان کو اب واپس جنگلوں اور غاروں کی طرف جانا پڑے گا، لیکن خیال رہے کہ وہ پہلے جس طرح جنگلوں اور غاروں میں محفوظ و آسودہ رہا ہے، اب اس طرح نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ سفاکی اور چالاکی بھی اب اس کے ساتھ جنگل اور غار میں پہنچے گی اور تباہی کا سامان کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اب اس کی بے حسی بھی مزید غارت گر ثابت ہو  گی۔ بے حسی اس جدید، ترقی یافتہ، روشن خیال اور ٹیکنالوجی کی نعمتوں سے مالامال دنیا کا سب سے بڑا مظہر ہے جو انسان اور اس کے تمدن کے معکوس سفر کی قدم بہ قدم نشان دہی کر رہا ہے۔ اِس کے مظاہرے آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ہر بار بے حسی کا پہلے سے بڑا تماشا سامنے آتا ہے اور انسانی اعصاب کو سن کر دیتا ہے، لیکن جلد ہی جلتی بجھتی روشنیوں کے کھیل اور مسلسل شور کرتے ڈھول تاشوں کی گونج میں اسے فراموش کر دیا جاتا ہے اور اس طرح کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ خود غرضی اور سفاکی افراد اور معاشروں میں پہلے بھی رہی ہو گی، لیکن جس سطح پر اب اظہار ہوتا ہے، وہ کچھ اور ہی ہے۔  یہ بے حسی آج افراد سے زیادہ اجتماعی یعنی، گروہوں، اداروں اور قوموں کی سطح پر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس کا تازہ اور بدترین حوالہ اِس وقت روہنگیا مسلمانوں کی صورتِ حال ہے۔

اطلاعات اور محدود اندازے کے مطابق روہینگیا ریاست سے جان بچا کر بھاگنے یا ہجرت کرنے والے مسلمان باشندوں کی تعداد اڑھائی lakhسے متجاوز ہے جن میں سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد بنگلادیش میں زندہ داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں، کچھ لوگ ابھی دوسرے پڑوسی ممالک کے راستوں یا سرحدوں پر ہیں، لیکن سینکڑوں افراد جن میں مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں، بھوک، پیاس، راستے کی صعوبتوں اور منہ زور سمندری موجوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ خود میانمار کی جغرافیائی حدود میں ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ بربریت کے ان ہولناک واقعات کو عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے پوری توجہ دی ہے۔ متعدد ممالک میں ان کے خلاف ردِعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں اور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان باتوں سے اس حقیقت کا ثبوت تو ضرور ملتا ہے، کہ ہر طرح کی تفریق سے بالا تر ہو کر انسانیت کا دکھ محسوس کرنے اور اس کے لیے آواز اٹھانے والے بہت لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں، بلکہ یہ کہا جانا چاہیے کہ عام الناس کی اکثریت انسان دوست ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان مظاہروں، ریلیوں اور قراردادوں سے بربریت کے ایسے واقعات پہلے بھی کب رک پاتے تھے اور اب تو طاقتور افراد اور اقوام کی ہٹ دھرمی اور بے غیرتی کی حد ہی گزر چکی ہے۔سخت حیرت اور اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ برما کے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت ہو رہا ہے جب وہاں Aung San Suu Kyi کی حکومت ہے، جمہوری قدروں کی پالن ہار محترمہ Aung San Suu Kyi اپنی طویل نظر بندی یا اسیری کے دنوں میں مسلسل سیاسی اقدار، جمہوری روایات، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی دہائی دیتی رہی ہیں۔ وہ بار بار انسانی غیرت کی بیداری کو موضوعِ گفتگو بناتی رہی ہیں۔بنیادی حقوق کی بات کرتی رہی ہیں۔ یہ وہی محترمہ ہیں جن کی لگ بھگ 15 سال نظر بندی نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دلائی، جن کے جمہوری اداروں پر ایمان، انسانیت پر یقین، عدم تشدد کے فلسفے اور باہمی افہام و تفہیم سے جینے کے نظریے نے انھیں عالمی سطح پر اس حد تک پسندیدہ سیاسی رہنما بنا دیا کہ ان کے لیے دوسرے ممالک کے اہلِ قلم، اہلِ دانش اور اہلِ سیاست نے تعریف کے کلمات کہے۔ ان کے لیے بین الاقوامی سطح پر رہائی کی آواز اٹھائی گئی۔  نظمیں کہی گئیں اور کالم لکھے گئے۔ بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے ان کے لیے پروگرام کیے۔ ان کے پرامن، بھائی چارے اور جمہوری نظریات کا پرچار کیا۔ ناروے کی سویڈش اکیڈمی نے جب انھیں امن کا نوبیل انعام دیا تو ان کے ملک میں ڈکٹیٹر شپ چل رہی تھی۔ Aung San Suu Kyi نظر بند تھیں۔       انھیں انعام وصول کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے دو بیٹے یہ انعام لینے کے لیے ناروے پہنچے تو انھوں نے اپنی تقریر میں اپنی والدہ کی طرف سے جو پیغام پہنچایا، وہ امن، محبت، بھائی چارے، انسانیت اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے تھا۔ اس میں دوستی، انصاف اور بقائے باہمی پر اصرار کیا گیا تھا اور دہائی دی گئی تھی کہ ڈکٹیٹرز نے رنگون اور برما میں انسانی خون سے ہولی کھیلی ہے۔ افسوس کیا گیا تھا کہ ان کے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی شرم ناک حد کو پہنچی ہے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا تھا اور انسانیت کے نام پر پکارا گیا تھا۔

یہ ہیں Aung San Suu Kyi جو اس وقت میانمار کی بے تاج ملکہ ہیں، اور جن کے اشارہ ابرو سے وہاں ہوائوں کا رخ بدلتا ہے اور امن، انصاف، بھائی چارے، جمہوریت اور انسانیت کا سورج طلوع ہوتا ہے۔  یہ انھی کا عہد ِزریں ہے کہ جس میں آج روہنگیا مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی اور آسمان تاریک۔ یہ امن کے نوبیل انعام کی قدر افزائی کا مظاہرہ ہی تو ہے کہ آج میانمار کی ریاست میں ماں باپ کے سامنے اولاد کو برہنہ کر کے بدترین تشدد اور ذلت کا سامان کیا جاتا ہے۔ زندہ لوگوں کے انسانی اعضا کاٹے جاتے ہیں۔ بچوں کے منہ میں جلتے ہوئے انگارے ٹھونسے جاتے ہیں، عورتوں کے جسموں کی رسوا کن بے حرمتی کی جاتی ہے۔ زندہ افراد کو آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ جان بچا کر بھاگنے والوں کا سمندر میں اس وقت تک پیچھا کیا جاتا ہے جب تک انھیں ہلاک خیز موجیں نگل نہیں لیتیں۔ امن، انصاف اور انسانیت کی پالن ہار محترمہ آنگ ساں سوچی ان سب واقعات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور اس خلفشار کو اپنی ریاست کا داخلی مسئلہ بتاتی ہیں۔ وہ شکایت کرتی ہیں کہ عالمی میڈیا ان کے ملک کے گروہی اختلاف کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے اور خواہ مخواہ اسے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی قرار دے رہا ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتی ہیں کہ یہ سب تو کچھ بھی نہیں، محض گروہی جھگڑا ہے۔ وہ نہتے انسانوں پر ریاستی جبر و تشدد کو امنِ عامہ کے حصول کی کارروائی قرار دیتی ہیں، وہ فوج کی مسلح بربریت کو ریاستی نظام کی عمل داری بتاتی ہیں۔ ان کے اشارہ ابرو پر ریاستی ادارے اور حکومتی افراد اس سارے اندوہ ناک منظر نامے کی بنیاد کی عجیب مضحکہ خیز تعبیر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب ان حملوں کا ردِعمل ہے جو مسلمان شرپسندوں نے روہنگیا ریاست کی پولیس اور فوجی چوکیوں پر کیے تھے۔ بی بی سی اور وائس آف امریکا پر یہ رپورٹس اور بیانات چلائے جاتے ہیں۔ انھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ان خبروں، بیانات اور رپورٹس کو سننے والوں کو بوسنیا کے مسلمانوں کے اذیت و آلام کے دن یاد آ جاتے ہیں جب مسلمانوں کی بڑی آبادی کو ایسے ہی خاک و خون میں نہلا دیا گیا تھا،

لیکن سی این این اور وائس آف امریکا تکرار کرتے ہوئے عالمی رائے کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر کردوں کے ضمنی مسئلے پر مبذول کرانے کی ناکام اور جاہلانہ کوشش کر رہے تھے۔ Aung San Suu Kyi یہ بات کیسے بھول رہی ہیں کہ آج سیٹیلائٹ کیمرے ان کے ملک اور اس کی ریاست میں ہونے والے واقعات کو بھی ریکارڈ کر رہے ہیں جن کو اپنے ملک کے ذرائع ابلاغ کو ریکارڈ اور نشر کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ آج وہ خبر رساں اور تحقیقاتی اداروں کے افراد کو ویزا دینے سے انکار کر کے یہ سمجھ رہی ہیں کہ سب انتظام ہو گیا، اب کوئی قصہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔ یہ بھلا اب کہاں ممکن ہے۔ اب تو سو ذرائع ہیں کہ جو ایسی خبریں بھی دستاویزی ثبوت کے نکال لیتے ہیں جنھیں سات پردوں میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ مناظر بھی محفوظ کر لیے جاتے ہیں جنھیں دیکھنے والی آنکھوں کو ابدی نیند سلا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب روئے زمیں پر ان کی کوئی گواہی باقی نہیں رہی۔ چنانچہ پھر وائس آف امریکا، سی این این، بی بی سی، الجزیرہ، سیلون اور گارجین غرض سبھی وہ ساری باتیں بتانے اور وہ سارے منظر دکھانے لگتے ہیں جنھیں چھپایا گیا تھا، بے شرمی سے جن کی نفی کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہی عالمی رائے عامہ جس نے ان کی اسیری کے دور میں Aung San Suu Kyi کے حق میں آواز اٹھائی تھی، نعرے لگائے تھے، ان کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا تھا، ان کے خلاف بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی خبریں، تصاویر اور وڈیو کلپس آخر ساری دنیا کے سامنے Aung San Suu Kyi اور ان کے حکومتی کارندوں کے جھوٹ، مکار، دھوکا دہی اور منافقت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں سادہ دل اور باضمیر لوگ لرز کر رہ جاتے ہیں۔ Aung San Suu Kyi کے خلاف گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر یہاں تک پہنچتا ہے کہ انھیں دیے گئے انسان دوستی، جمہوریت پسندی اور نوبیل امن کے انعامات کی واپسی کے مطالبات سامنے آنے لگتے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی تنقید اپنی جگہ، لیکن جو کچھ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلا ہے، اگر انسان میں غیرت ہو، اس کا ضمیر زندہ ہو تو اس کے بعد اقتدار میں رہنا تو دور کی بات ہے، زندہ رہنا تک گالی بن جاتا ہے۔ یہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے سانحات پر عوامی یا عام انسانی ردِعمل کی صورتِ حال کا ایک رخ ہے۔

دوسری طرف اب ذرا عالمی قوتوں کی بے حسی اور ضمیری کا نقشہ بھی لگے ہاتھوں دیکھ لیجیے۔ جبر و استبداد کے اس لرزا دینے والے کھیل پر ساری عالمی قوتیں محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت دیکھیے تو اقوامِ متحدہ کے سارے طاقتور رہنما ایسے لاتعلق ہیں جیسے انھیں اس بربریت کی مطلق خبر ہی نہیں ہے، یا پھر منافقت کی حد کو پہنچی ہوئی کسی مصلحت نے انھیں بھیگے ہوئے چوہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوسری طرف اس یک قطبی دنیا کی سپر پاور، غریبوں کا ملجا اور بے سہاروں کا ماوی، جمہوریت کا چیمپئن اور جنگ و جدل کے ہر منظر نامے کا خدائی فوج دار امریکا بہادر فلسطین، مصر اور شام کے ساتھ اب برما کے مسلمانوں کی اذیت و ابتلا سے بھی بالکل بے خبر ہے۔  شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربات پر اپنی گہری تشویش کے اظہار سے وہ غافل نہیں ہے، لیکن برما میں سسکتی ہوئی انسانیت کی آہ و بکا اس تک نہیں پہنچ رہی۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس جیسے اول تو غافل ہیں اور اگر کوئی ان میں سے ہشیار ہے بھی تو محض مذمت کو کافی جانتا ہے۔ امنِ عالم، انسان دوستی، عدل و انصاف، مساوات، بنیادی حقوق اور آزادی کے سب دعوے دار منہ میں یوں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں جیسے حقیقی نہیں، بلکہ کسی فلم کا منظر ان کے سامنے ہے۔ دوسری طرف حد یہ ہے کہ بھارت کے وزیر ِاعظم Narendra Modi اس بربریت کی داد دینے اور Aung San Suu Kyi سے اظہارِ یک جہتی کے لیے میانمار جا پہنچتے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت مودی کے دورے کے چاہے جتنے اور جو بھی جواز پیش کرے، لیکن ان سے Narendra Modi کے ایشیائی خواب اور عزائم چھپائے نہیں چھپتے۔ اس لیے کہ اس دورے کی ٹائمنگ زبانِ حال سے کچھ اور کہہ رہی ہے۔ چلیے، یہ تو عالمی سام راج، اس کے ہتھ کنڈوں، حیلوں، امنگوں اور آرزووں کا تناظر ہے۔  مسلمان کو اس سے اور کوئی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے،  انھوں نے تو ظالم و جابر حکم رانوں کو پوری قوت سے للکارا ہو گا۔ بے یار و مددگار معصوم بچوں کی مدد کو لپکے ہوں گے۔ بہنوں بیٹیوں کی عزت کی پامالی نے خون کھولا دیا ہو گا۔ اس قوت و جوش کے ساتھ بڑھے ہوں گے کہ رن کانپ اٹھا ہو گا۔ اب آن کی آن میں یہ منظر بدلے گا، ظالم سے رعایت نہیں ہو گی۔ مظلوم کو انصاف دلایا جائے گا اور حق کا بول بالا ہو گا۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سائیں سائیں کرتا ہوا سکوت ہے۔ دلوں کو پاش پاش کر ڈالنے والا گہرا سکوت۔ یاخدا! اس سکوت میں اور یہود و انصاری کی طرف کے سناٹے میں کیا فرق ہے؟ عراق، افغانستان، فلسطین، مصر، اور شام کو چھوڑ دیجیے کہ خود ابتلاوں میں گھرے ہوئے ہیں، لیکن سعودی عرب، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، عمان، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا کے حکم رانوں کو آخر کیا ہوا؟ وہ جسے مسلم امہ کہتے ہیں، اس کا درد کیا ہوا؟ وہ جو مسلمان ممالک نے متحدہ فوج بنائی ہے، وہ آخر کس دن کے لیے ہے اور کس کام کے لیے؟  جو عالمی منظر نامے پر اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، آخر ان پر کس مصلحت کے جبر نے خاموشی نافذ کی ہے؟ یہ کوئی اندوہ ناک خواب ہے یا خاکم بدہن واقعی امتِ مسلم کے حکمرانوں کی حمیت پارہ پارہ ہو چکی ہے؟

روہنگیا مسلمان، عالمی بے ضمیری کا نیا نشان

نیوز ٹائم

رنگ و نسل، زبان و مذہب کی تفریق اور عمر کے تفاوت سے قطعِ نظر ایک احساس دنیا کے مختلف برِاعظموں پر آباد لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہ سفاکی، بربریت، وحشیانہ پن اور غیر انسانی رویوں سے مغلوب ہوتی جا رہی ہے اور اس لیے ناقابلِ برداشت بھی۔ یہ احساس اس لیے غلط نہیں ہے کہ روز مرہ تجربات و مشاہدات حقیقی صورتِ حال کے اسی نقشے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یقینا یہ نہایت ہول ناک اور بہت مایوس کن بات ہے۔ اس لیے کہ دوسرے لفظوں میں یہ انسانی تہذیب و تمدن کے معکوس سفر کا منظرنامہ ہے۔ گویا انسان کو اب واپس جنگلوں اور غاروں کی طرف جانا پڑے گا، لیکن خیال رہے کہ وہ پہلے جس طرح جنگلوں اور غاروں میں محفوظ و آسودہ رہا ہے، اب اس طرح نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ سفاکی اور چالاکی بھی اب اس کے ساتھ جنگل اور غار میں پہنچے گی اور تباہی کا سامان کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اب اس کی بے حسی بھی مزید غارت گر ثابت ہو  گی۔ بے حسی اس جدید، ترقی یافتہ، روشن خیال اور ٹیکنالوجی کی نعمتوں سے مالامال دنیا کا سب سے بڑا مظہر ہے جو انسان اور اس کے تمدن کے معکوس سفر کی قدم بہ قدم نشان دہی کر رہا ہے۔ اِس کے مظاہرے آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ہر بار بے حسی کا پہلے سے بڑا تماشا سامنے آتا ہے اور انسانی اعصاب کو سن کر دیتا ہے، لیکن جلد ہی جلتی بجھتی روشنیوں کے کھیل اور مسلسل شور کرتے ڈھول تاشوں کی گونج میں اسے فراموش کر دیا جاتا ہے اور اس طرح کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ خود غرضی اور سفاکی افراد اور معاشروں میں پہلے بھی رہی ہو گی، لیکن جس سطح پر اب اظہار ہوتا ہے، وہ کچھ اور ہی ہے۔  یہ بے حسی آج افراد سے زیادہ اجتماعی یعنی، گروہوں، اداروں اور قوموں کی سطح پر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس کا تازہ اور بدترین حوالہ اِس وقت روہنگیا مسلمانوں کی صورتِ حال ہے۔

اطلاعات اور محدود اندازے کے مطابق روہینگیا ریاست سے جان بچا کر بھاگنے یا ہجرت کرنے والے مسلمان باشندوں کی تعداد اڑھائی lakhسے متجاوز ہے جن میں سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد بنگلادیش میں زندہ داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں، کچھ لوگ ابھی دوسرے پڑوسی ممالک کے راستوں یا سرحدوں پر ہیں، لیکن سینکڑوں افراد جن میں مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں، بھوک، پیاس، راستے کی صعوبتوں اور منہ زور سمندری موجوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ خود میانمار کی جغرافیائی حدود میں ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ بربریت کے ان ہولناک واقعات کو عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے پوری توجہ دی ہے۔ متعدد ممالک میں ان کے خلاف ردِعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں اور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان باتوں سے اس حقیقت کا ثبوت تو ضرور ملتا ہے، کہ ہر طرح کی تفریق سے بالا تر ہو کر انسانیت کا دکھ محسوس کرنے اور اس کے لیے آواز اٹھانے والے بہت لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں، بلکہ یہ کہا جانا چاہیے کہ عام الناس کی اکثریت انسان دوست ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان مظاہروں، ریلیوں اور قراردادوں سے بربریت کے ایسے واقعات پہلے بھی کب رک پاتے تھے اور اب تو طاقتور افراد اور اقوام کی ہٹ دھرمی اور بے غیرتی کی حد ہی گزر چکی ہے۔سخت حیرت اور اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ برما کے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت ہو رہا ہے جب وہاں Aung San Suu Kyi کی حکومت ہے، جمہوری قدروں کی پالن ہار محترمہ Aung San Suu Kyi اپنی طویل نظر بندی یا اسیری کے دنوں میں مسلسل سیاسی اقدار، جمہوری روایات، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی دہائی دیتی رہی ہیں۔ وہ بار بار انسانی غیرت کی بیداری کو موضوعِ گفتگو بناتی رہی ہیں۔بنیادی حقوق کی بات کرتی رہی ہیں۔ یہ وہی محترمہ ہیں جن کی لگ بھگ 15 سال نظر بندی نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دلائی، جن کے جمہوری اداروں پر ایمان، انسانیت پر یقین، عدم تشدد کے فلسفے اور باہمی افہام و تفہیم سے جینے کے نظریے نے انھیں عالمی سطح پر اس حد تک پسندیدہ سیاسی رہنما بنا دیا کہ ان کے لیے دوسرے ممالک کے اہلِ قلم، اہلِ دانش اور اہلِ سیاست نے تعریف کے کلمات کہے۔ ان کے لیے بین الاقوامی سطح پر رہائی کی آواز اٹھائی گئی۔  نظمیں کہی گئیں اور کالم لکھے گئے۔ بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے ان کے لیے پروگرام کیے۔ ان کے پرامن، بھائی چارے اور جمہوری نظریات کا پرچار کیا۔ ناروے کی سویڈش اکیڈمی نے جب انھیں امن کا نوبیل انعام دیا تو ان کے ملک میں ڈکٹیٹر شپ چل رہی تھی۔ Aung San Suu Kyi نظر بند تھیں۔       انھیں انعام وصول کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے دو بیٹے یہ انعام لینے کے لیے ناروے پہنچے تو انھوں نے اپنی تقریر میں اپنی والدہ کی طرف سے جو پیغام پہنچایا، وہ امن، محبت، بھائی چارے، انسانیت اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے تھا۔ اس میں دوستی، انصاف اور بقائے باہمی پر اصرار کیا گیا تھا اور دہائی دی گئی تھی کہ ڈکٹیٹرز نے رنگون اور برما میں انسانی خون سے ہولی کھیلی ہے۔ افسوس کیا گیا تھا کہ ان کے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی شرم ناک حد کو پہنچی ہے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا تھا اور انسانیت کے نام پر پکارا گیا تھا۔

یہ ہیں Aung San Suu Kyi جو اس وقت میانمار کی بے تاج ملکہ ہیں، اور جن کے اشارہ ابرو سے وہاں ہوائوں کا رخ بدلتا ہے اور امن، انصاف، بھائی چارے، جمہوریت اور انسانیت کا سورج طلوع ہوتا ہے۔  یہ انھی کا عہد ِزریں ہے کہ جس میں آج روہنگیا مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی اور آسمان تاریک۔ یہ امن کے نوبیل انعام کی قدر افزائی کا مظاہرہ ہی تو ہے کہ آج میانمار کی ریاست میں ماں باپ کے سامنے اولاد کو برہنہ کر کے بدترین تشدد اور ذلت کا سامان کیا جاتا ہے۔ زندہ لوگوں کے انسانی اعضا کاٹے جاتے ہیں۔ بچوں کے منہ میں جلتے ہوئے انگارے ٹھونسے جاتے ہیں، عورتوں کے جسموں کی رسوا کن بے حرمتی کی جاتی ہے۔ زندہ افراد کو آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ جان بچا کر بھاگنے والوں کا سمندر میں اس وقت تک پیچھا کیا جاتا ہے جب تک انھیں ہلاک خیز موجیں نگل نہیں لیتیں۔ امن، انصاف اور انسانیت کی پالن ہار محترمہ آنگ ساں سوچی ان سب واقعات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور اس خلفشار کو اپنی ریاست کا داخلی مسئلہ بتاتی ہیں۔ وہ شکایت کرتی ہیں کہ عالمی میڈیا ان کے ملک کے گروہی اختلاف کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے اور خواہ مخواہ اسے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی قرار دے رہا ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتی ہیں کہ یہ سب تو کچھ بھی نہیں، محض گروہی جھگڑا ہے۔ وہ نہتے انسانوں پر ریاستی جبر و تشدد کو امنِ عامہ کے حصول کی کارروائی قرار دیتی ہیں، وہ فوج کی مسلح بربریت کو ریاستی نظام کی عمل داری بتاتی ہیں۔ ان کے اشارہ ابرو پر ریاستی ادارے اور حکومتی افراد اس سارے اندوہ ناک منظر نامے کی بنیاد کی عجیب مضحکہ خیز تعبیر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب ان حملوں کا ردِعمل ہے جو مسلمان شرپسندوں نے روہنگیا ریاست کی پولیس اور فوجی چوکیوں پر کیے تھے۔ بی بی سی اور وائس آف امریکا پر یہ رپورٹس اور بیانات چلائے جاتے ہیں۔ انھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ان خبروں، بیانات اور رپورٹس کو سننے والوں کو بوسنیا کے مسلمانوں کے اذیت و آلام کے دن یاد آ جاتے ہیں جب مسلمانوں کی بڑی آبادی کو ایسے ہی خاک و خون میں نہلا دیا گیا تھا،

لیکن سی این این اور وائس آف امریکا تکرار کرتے ہوئے عالمی رائے کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر کردوں کے ضمنی مسئلے پر مبذول کرانے کی ناکام اور جاہلانہ کوشش کر رہے تھے۔ Aung San Suu Kyi یہ بات کیسے بھول رہی ہیں کہ آج سیٹیلائٹ کیمرے ان کے ملک اور اس کی ریاست میں ہونے والے واقعات کو بھی ریکارڈ کر رہے ہیں جن کو اپنے ملک کے ذرائع ابلاغ کو ریکارڈ اور نشر کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ آج وہ خبر رساں اور تحقیقاتی اداروں کے افراد کو ویزا دینے سے انکار کر کے یہ سمجھ رہی ہیں کہ سب انتظام ہو گیا، اب کوئی قصہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔ یہ بھلا اب کہاں ممکن ہے۔ اب تو سو ذرائع ہیں کہ جو ایسی خبریں بھی دستاویزی ثبوت کے نکال لیتے ہیں جنھیں سات پردوں میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ مناظر بھی محفوظ کر لیے جاتے ہیں جنھیں دیکھنے والی آنکھوں کو ابدی نیند سلا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب روئے زمیں پر ان کی کوئی گواہی باقی نہیں رہی۔ چنانچہ پھر وائس آف امریکا، سی این این، بی بی سی، الجزیرہ، سیلون اور گارجین غرض سبھی وہ ساری باتیں بتانے اور وہ سارے منظر دکھانے لگتے ہیں جنھیں چھپایا گیا تھا، بے شرمی سے جن کی نفی کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہی عالمی رائے عامہ جس نے ان کی اسیری کے دور میں Aung San Suu Kyi کے حق میں آواز اٹھائی تھی، نعرے لگائے تھے، ان کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا تھا، ان کے خلاف بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی خبریں، تصاویر اور وڈیو کلپس آخر ساری دنیا کے سامنے Aung San Suu Kyi اور ان کے حکومتی کارندوں کے جھوٹ، مکار، دھوکا دہی اور منافقت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں سادہ دل اور باضمیر لوگ لرز کر رہ جاتے ہیں۔ Aung San Suu Kyi کے خلاف گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر یہاں تک پہنچتا ہے کہ انھیں دیے گئے انسان دوستی، جمہوریت پسندی اور نوبیل امن کے انعامات کی واپسی کے مطالبات سامنے آنے لگتے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی تنقید اپنی جگہ، لیکن جو کچھ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلا ہے، اگر انسان میں غیرت ہو، اس کا ضمیر زندہ ہو تو اس کے بعد اقتدار میں رہنا تو دور کی بات ہے، زندہ رہنا تک گالی بن جاتا ہے۔ یہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے سانحات پر عوامی یا عام انسانی ردِعمل کی صورتِ حال کا ایک رخ ہے۔

دوسری طرف اب ذرا عالمی قوتوں کی بے حسی اور ضمیری کا نقشہ بھی لگے ہاتھوں دیکھ لیجیے۔ جبر و استبداد کے اس لرزا دینے والے کھیل پر ساری عالمی قوتیں محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت دیکھیے تو اقوامِ متحدہ کے سارے طاقتور رہنما ایسے لاتعلق ہیں جیسے انھیں اس بربریت کی مطلق خبر ہی نہیں ہے، یا پھر منافقت کی حد کو پہنچی ہوئی کسی مصلحت نے انھیں بھیگے ہوئے چوہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوسری طرف اس یک قطبی دنیا کی سپر پاور، غریبوں کا ملجا اور بے سہاروں کا ماوی، جمہوریت کا چیمپئن اور جنگ و جدل کے ہر منظر نامے کا خدائی فوج دار امریکا بہادر فلسطین، مصر اور شام کے ساتھ اب برما کے مسلمانوں کی اذیت و ابتلا سے بھی بالکل بے خبر ہے۔  شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربات پر اپنی گہری تشویش کے اظہار سے وہ غافل نہیں ہے، لیکن برما میں سسکتی ہوئی انسانیت کی آہ و بکا اس تک نہیں پہنچ رہی۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس جیسے اول تو غافل ہیں اور اگر کوئی ان میں سے ہشیار ہے بھی تو محض مذمت کو کافی جانتا ہے۔ امنِ عالم، انسان دوستی، عدل و انصاف، مساوات، بنیادی حقوق اور آزادی کے سب دعوے دار منہ میں یوں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں جیسے حقیقی نہیں، بلکہ کسی فلم کا منظر ان کے سامنے ہے۔ دوسری طرف حد یہ ہے کہ بھارت کے وزیر ِاعظم Narendra Modi اس بربریت کی داد دینے اور Aung San Suu Kyi سے اظہارِ یک جہتی کے لیے میانمار جا پہنچتے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت مودی کے دورے کے چاہے جتنے اور جو بھی جواز پیش کرے، لیکن ان سے Narendra Modi کے ایشیائی خواب اور عزائم چھپائے نہیں چھپتے۔ اس لیے کہ اس دورے کی ٹائمنگ زبانِ حال سے کچھ اور کہہ رہی ہے۔ چلیے، یہ تو عالمی سام راج، اس کے ہتھ کنڈوں، حیلوں، امنگوں اور آرزووں کا تناظر ہے۔  مسلمان کو اس سے اور کوئی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے،  انھوں نے تو ظالم و جابر حکم رانوں کو پوری قوت سے للکارا ہو گا۔ بے یار و مددگار معصوم بچوں کی مدد کو لپکے ہوں گے۔ بہنوں بیٹیوں کی عزت کی پامالی نے خون کھولا دیا ہو گا۔ اس قوت و جوش کے ساتھ بڑھے ہوں گے کہ رن کانپ اٹھا ہو گا۔ اب آن کی آن میں یہ منظر بدلے گا، ظالم سے رعایت نہیں ہو گی۔ مظلوم کو انصاف دلایا جائے گا اور حق کا بول بالا ہو گا۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سائیں سائیں کرتا ہوا سکوت ہے۔ دلوں کو پاش پاش کر ڈالنے والا گہرا سکوت۔ یاخدا! اس سکوت میں اور یہود و انصاری کی طرف کے سناٹے میں کیا فرق ہے؟ عراق، افغانستان، فلسطین، مصر، اور شام کو چھوڑ دیجیے کہ خود ابتلاوں میں گھرے ہوئے ہیں، لیکن سعودی عرب، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، عمان، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا کے حکم رانوں کو آخر کیا ہوا؟ وہ جسے مسلم امہ کہتے ہیں، اس کا درد کیا ہوا؟ وہ جو مسلمان ممالک نے متحدہ فوج بنائی ہے، وہ آخر کس دن کے لیے ہے اور کس کام کے لیے؟  جو عالمی منظر نامے پر اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، آخر ان پر کس مصلحت کے جبر نے خاموشی نافذ کی ہے؟ یہ کوئی اندوہ ناک خواب ہے یا خاکم بدہن واقعی امتِ مسلم کے حکمرانوں کی حمیت پارہ پارہ ہو چکی ہے؟

No comments.

Leave a Reply