انتخابی کامیابی کے بعد چانسلر انجیلا مرکل کے لیے نئے چیلنجز

انجیلا مرکل جرمنی کا وفاقی انتخاب چوتھی مدت کے لیے جیت چکی ہیں

انجیلا مرکل جرمنی کا وفاقی انتخاب چوتھی مدت کے لیے جیت چکی ہیں

برلن ۔۔۔ نیوز ٹائم

انجیلا مرکل جرمنی کا وفاقی انتخاب چوتھی مدت کے لیے جیت چکی ہیں اور یہ نتیجہ 3 ماہ قبل انتخابی مہم کے آغاز سے ہی متوقع دکھائی دیتا تھا۔ لیکن حکمران جماعت کرسچین ڈیمو کریٹس کو توقع سے کم سیٹیں ملیں اور جرمنی کے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سرکاری نتائج کے مطابق کرسچین ڈیمو کریٹس یونین یا سی ڈی یو اور بیورین میں اس کی اتحادی پارٹی، کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو نے کل 33 فیصد ووٹ حاصل کئے جس کے بعد انجیلا مرکل انتخابات کے بعد کے دور کے صرف ان 3 چانسلر میں سے ایک بن گئیں جو اس اہم عہدے کی چوتھی مدت کیلئے منتخب ہوئے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ سی ڈی یو / سی ایس یو 36 سے 39 فیصد تک ووٹ حاصل کریں گی۔ کرسچین سوشل یونین کی ووٹوں کی کم تر شرح اور جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی متنازع جمہور پسند پارٹی آلٹرنیٹیو فار ڈیمو کریسی کے توقع سے زیادہ ووٹ، انجیلا مرکل کے لیے جیتنے کا ایک معقول جواز بنے۔ انجیلا مرکل کا کہنا ہے کہ آنے والے ہفتے آسان نہیں ہوں گے لیکن سی ڈی یو اور سی ایس یو ایسی جماعتیں ہیں جو ملک کے لیے، ہمارے پروگرام کے لیے، اور اس کے لیے جو ہمارے لوگوں کے لیے اہم ہیں، اپنی ذمہ داری سے واقف ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم آنے والے ہفتوں میں حالات کو اپنے کنٹرول میں کر لیں گے۔ آلٹر نیٹیو فار ڈیمو کریسی یعنی اے ایف ڈی نے قومی ووٹوں میں سے لگ بھگ 30 فیصد حاصل کئے جس سے جرمن فیڈرل کونسل بانڈسٹا میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے درکار 5  فیصد کی کم سے کم حد تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ نازی دور کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ قوم پرست سیاستدان جرمن پارلیمنٹ میں شامل ہوئے ہیں۔ اے ڈی ایف کے شریک لیڈر Alexander Gauland کا کہنا تھا کہ چونکہ واضح طور پر پارٹیاں اب عام لوگوں کے احساسات کو نہیں سمجھ رہیں، کیونکہ انہوں نے جزوی طور پر، مشترکہ طور پر ایک پالیسی بنائی جسے لوگ اب نہیں پسند کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ملک میں اس انداز کی تبدیلی آئے جس میں ہم پر غیر ملکیوں کی بڑی یلغار ہوں اور وہ برسوں تک زیرو انٹریسٹ پالیسی نہیں چاہتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب لوگوں نے جو بالکل نظر انداز ہو رہے تھے، اس بار مقابلہ کیا ہے۔ جرمنی میں کچھ حلقوں نے اے ڈی ایف پارٹی کے ابھرنے کا لزام بالواسطہ طور پر انجیلا مرکل پر عائد کیا ہے جو 2015 ء میں اس وقت تک سیاسی منظر نامے سے غائب دکھائی دیتی تھی جب تک انجیلا مرکل نے مشرق وسطی سے جنگ کے پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھولنے کی پالیسی  نہیں اپنائی تھی۔ انجیلا  مرکل کی سیاسی حیثیت اس وقت بہت  مخدوش دکھائی دیتی تھی جب ملک امیگریشن سے متعلق ان کی پالیسی کے خلاف ہو رہا تھا اور جنوبی یورپ میں قرضے کے بحران اور جرمنی میں بڑھتے ہوئے سماجی عدم مساوات سے نمٹنے کے ان کے انداز پر برہمی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی مقبولیت اس وقت بحال ہوئی جب پناہ گزینوں کے ریلے کم ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا صدارتی انتخاب جیتا۔ انجیلا مرکل کی سب سے اہم مدمقابل اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت، سوشل ڈیمو کریٹس نے سبکدوش ہونے والے حکمران اتحاد کی ایک چھوٹی شراکت دار تھی، صرف 20.5 ووٹ حاصل کیے جو جنگ کے بعد اس کی جماعت کی طرف سے حاصل ہونے والے کم ترین ووٹ ہیں۔ انجیلا مرکل اب بحال ہونے والی اور آزاد مارکیٹ کی حامی جماعت، فری ڈیموکریٹس کے ساتھ، جو 2013 ء میں فیڈرل کونسل بانڈسٹا میں کوئی ایک بھی نشست نہیں جیت سکی تھی لیکن اتوار کے انتخاب میں کامیابی حاصل کر چکی ہے، اور گرین پارٹی کے ساتھ مل کر ایک اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے گفت و شنید کا آغاز کریں گی۔

No comments.

Leave a Reply