امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی سول اور ملٹری پاکستانی قیادت سے ملاقات

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی سول اور ملٹری پاکستانی قیادت سے ملاقات

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی سول اور ملٹری پاکستانی قیادت سے ملاقات

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ کے وزیر خارجہ Rex Tillerson نے پاکستان کو خطے میں امن و استحکام اور مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے نہایت اہم قرار دیا ہے۔ پاکستان آمد پر وزیر اعظم Shahid Khaqan Abbasi کے ساتھ ملاقات کے دوران اور رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں نہایت اہم ملک ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم Shahid Khaqan Abbasi نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرعزم ہے۔ ہم نے نتائج حاصل کیے ہیں اور امریکا کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے اور بہترین تعلقات قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ گزشتہ سہ پہر کابل سے مختصر دورہ پر اسلام آباد پہنچے۔ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں وزیر خارجہ Khawaja Asif ، وزیر داخلہ Ahsan Iqbal ، وزیر دفاع Khurram Dastgir ، سیکرٹری خارجہ Tehmina Janjua ، آرمی چیف جنرل Qamar Javaid Bajwa ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ General Naveed Mukhtar اور دیگر حکام نے معاونت کی۔ پاکستان میں امریکہ کے سفیر سمیت وفد نے Rex Tillersonکی معاونت کی۔ Shahid Khaqan Abbasi نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سٹرٹیجک حصہ دار ہیں اور آج پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جن باتوں پر متفق ہیں ان کو سراہتے ہیں اور رابطوں پر تحسین پیش کرتے ہیں۔ امریکی سفارتخانہ سے جاری بیان کے مطابق Rex Tillerson کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم کی زیرصدارت ایک اجلاس بھی ہوا۔ سیکرٹری Rex Tillerson نے دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں، معاشی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطہ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے صدر Trump کا پیغام دیا کہ پاکستان اپنے ہاں سے کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں اور جنگجوئوں کے خاتمہ کیلئے اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔ امریکی تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ازالہ کیلئے تشکیل دی گئی جنوبی ایشیا کیلئے امریکہ کی نئی پالیسی کے خدوخال بتائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن اور خطہ کی سلامتی کیلئے امریکہ اور دیگر کے ساتھ مل کر نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مستحکم افغانستان کے قیام، ISIL کو شکست دینے اور دونوں ملکوں کیلئے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ، پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مقاصد ہیں۔ Rex Tillerson نے تمام ملاقاتوں کے دوران اعتراف کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دی ہیں اور انہوں نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔  سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اعلی سطح کے وفد کے ہمراہ پاکستان آئے۔ یہ دورہ، وزیر اعظم Shahid Khaqan Abbasi اور امریکہ کے نائب صدر Mike Pence کے درمیان نیو یارک میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بھرپور دوطرفہ مذاکرات اور روابط شروع کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے وفد کو پاکستان میں سلامتی اور معیشت کی بہتر بنائی گئی صورتحال کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اب پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بہتر مواقع موجود ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان، امریکہ دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کے علاوہ، علاقائی اور عالمی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستانی وفد نے مہمان وفد کو پڑوسی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی کوششوں، بطور خاص ایک مستحکم افغانستان کیلئے پاکستان کے تعاون کی تفصیلات بتائیں۔ انہیں بتایا کہ خطہ میں پائیدار امن کا قیام مسلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے ساتھ منسلک ہے۔ انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے بھی آگاہ کیا گیا۔ مہمان وفد کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم، بطور خاص مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لازوال قربانیوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔  دوسری جانب گزشتہ روز بگرام ایئربیس پر Rex Tillerson سے ملاقات کرنے والے افغان صدر Ashraf Ghani بھی نئی دہلی پہنچ گئے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ Rex Tillerson دورہ پاکستان مکمل کرنے کے بعد بھارت روانہ ہو گئے۔

 امریکی وزیر خارجہ Rex Tillerson کے دورہ اسلام آباد کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے مہمان وفد کے ساتھ مشترکہ ملاقات کی اور یہ پیغام دیا کہ پاکستان، امریکہ دوطرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور افغان مسئلہ پر ملک کی سول اور عسکری قیادت یکساں موقف کی حامل ہے۔ دوطرفہ مذاکرات کی تفصیلات سے واقف ایک ذریعہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ حسب روایت کابل سے پاکستان کیلئے ڈو مور کا بیان داغ کر کے اسلام آباد پہنچے تاہم یہاں انہیں پاکستان کی طرف سے بھی امریکہ کیلئے ڈو مور کا مطالبہ سننے کو ملا۔ دوطرفہ مذاکرات انتہائی کھلے ماحول میں بے تکلفی کے ساتھ ہوئے۔ امریکی وزیر خارجہ نے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا، ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کیلئے نئی پالیسی کے خدوخال واضح کئے اور اس پالیسی میں پاکستان کے ممکنہ کلیدی کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے افغان طالبان ، بطور خاص حقانی نیٹ ورک کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنے پر زور دیا اور ISIL کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے مشترکہ مساعی کی بات کی۔ اس ذریعہ کے مطابق امریکہ سی آئی اے کے کنٹریکٹروں کے ذریعہ پاکستان کے اندر طالبان کے مبینہ ٹھکانوں اور ان کے رہنمائوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان کے تعاون کا متمنی ہے لیکن اس موضوع پر اشاروں کے سوا کھل کر بات نہیں کی گئی۔ پاکستانی وفد کی طرف سے اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ طاقت کے بل پر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی وفد کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جنگ کا خاتمہ اور بامقصد امن بات چیت ہی افغان مسئلہ کے حل کی بنیاد ہونی چاہئے۔ پاکستان نے امریکہ کی جنوبی ایشیا کیلئے نئی پالیسی کے نقائص اور افغانستان میں بھارت کے اضافی کردار پر تحفطات کا کھل کر اظہار کیا اور شواہد کے ساتھ بتایا کہ بھارت، افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کر رہا ہے جس کے پیش نظر، پاکستان اپنے تعاون کی نوعیت پر نظرثانی کر سکتا ہے۔ امریکی وفد کو روکے گئے کولیشن سپورٹ فنڈ کے پس منظر، اس کی ضرورت بتاتے ہوئے واضح کیا گیا کہ یہ فنڈ نہ تو امداد ہے، نہ ہی اس کے امداد ہونے کا تاثر دیا جائے اور واجب الادا رقم پاکستان کو ادا کی جائے کیونکہ محدود معاشی وسائل کے ساتھ پاکستان کیلئے دہشت گردی کے خلاف تسلسل کے ساتھ آپریشن جاری رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف حالیہ ڈرون حملوں اور دشہت گردوں کے ہلاکتوں کا حوالہ دیا جس پر پاکستان کی طرف سے تشکر کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان کے اقدامات بھی واضح کئے گئے۔ اس ذریعہ کے مطابق پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے ان مذاکرات سے فوری اور اہم توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔ یہ غنیمت ہے کہ انتہائی کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلی سیاسی سطح پر روابط بحال ہوئے ہیں جو غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے اہم ثابت ہو سکے ہیں۔ ٹی وی کے مطابق وزیر خارجہ نے کہا کہ Rex Tillerson کو بتایا کہ افغانستان میں امن ہو گا تو فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ پاکستانی وفد نے کھل کر اپنا موقف بیان کیا۔ امریکی وفد نے وہی باتیں کیں جو وہ پہلے سے کر رہے ہیں۔ امریکہ دہشتگردوں اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا کہہ رہا ہے۔ پاکستان افغان بارڈر پر باڑ لگا رہا ہے اعتماد کے بغیر امن نہیں ہو سکتا۔ فوج اور اداروں کا ایک بیان یہ امریکہ کیلئے مثال ہے۔ پاکستان نے صاف کہا مشکلات امریکی پالیسی کی وجہ سے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے الگ الگ ملاقاتوں کا وقت رکھا گیا تھا۔ سول قیادت اور فوج کا اجلاس میں ایک ساتھ ہونا سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔ سول اور فوج کا اجلاس میں ایک ساتھ ہونے سے اچھا پیغام گیا۔ امریکہ کو بتا دیا کہ کابل اور دہلی کی آوازوں سے اعتماد کو نقصان پہنچے گا اتحادی افواج کو وہ کامیابیاں نہیں ملیں جو پاکستان نے حاصل کیں۔ امریکہ بھی پاکستان کی مشرقی سرحد پر امن چاہتا ہے، بھارت، افغانستان سے بھی تخریب کاری پھیلا رہا ہے۔ بھارت نے دبائو پر ہی حریت رہنمائوں کو مذاکرات کی پیشکش کی۔

No comments.

Leave a Reply