سعودی عرب میں کل کتنے شہزادے ہیں؟

تاہم ایک اندازے کے بعد شہزادوں کی تعداد تقریبا 7000 ہے

تاہم ایک اندازے کے بعد شہزادوں کی تعداد تقریبا 7000 ہے

الریاض ۔۔۔ نیوز ٹائم

سعودی عرب میں شہزادوں کی گرفتاریوں کی پوری دنیا کے میڈیا نے شہہ سرخیوں میں جگہ دی لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی شہزادوں کی تعداد کتنی ہے، اب اس سوال پر غیر ملکی میڈیا نے روشنی ڈالی ہے اور برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی شہزادوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس تعداد پر اختلاف ہے تاہم ایک اندازے کے بعد شہزادوں کی تعداد تقریبا 7000  ہے اور جہاں تک شہزادیوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بی بی سی نے سعودی عرب کے معاملات پر تحقیق کرنے والے Ahmed Zaki کے حوالے سے لکھا کہ دنیا میں کہیں بھی اتنے زیادہ شہزادے نہیں ہیں، جتنے سعودی عرب میں ہیں، یہ سب سعودی عرب کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور 1932 ء میں سعودی سلطنت قائم کرنے والے Abdul Aziz Bin Saud کی اولاد ہیں۔ Abdul Aziz Bin Saud کی وفات کے وقت تک سعودی عرب خلیج سے بحر احمر تک اور عراق سے یمن تک پھیل چکا تھا، All Saud پیدا ہوتے ہی شہزادہ کہلاتا ہے اور اسے تخت حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے، Abdul Aziz Bin Saud نے مختلف قبائل میں متعدد شادیاں کی تھیں اور ان سے کئی درجن اولاد ہوئیں۔ واضح طور پر یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ان کی کتنی بیویاں تھیں لیکن یہ کہا گیا ہے کہ Abdul Aziz Bin Saud نے 20 سے زائد خواتین سے شادی کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق شاہی خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کو پیدائش سے ہی بہت سارے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور لندن سکول آف اکنامکس میں خلیجی ممالک کی پالیسیوں پر تحقیق کرنے والے Courtney Ferrer کہتے ہیں  کہ شہزادوں کی اس لمبی چوڑی فوج کا سب سے بڑا اثر سعودی عرب کے اقتدار پر ہوتا ہے۔  ہر کسی کو کچھ نہ کچھ اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں، دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 1990ء کی دہائی میں شاہی خاندان کے ارکان کا سالانہ خرچ تقریباً 2 ارب ڈالر تھا  جبکہ 1996ء میں روئٹرز میں شائع ایک مضمون میں یہ کہا گیا تھا کہ آل سعود کی نسل میں جو سب سے کم درجے پر ہیں انھیں بھی ہر ماہ رقم ملتی ہے۔ Ahmed Zaki نے انکشاف کیا کہ حالیہ شہزادے جو براہ راست Abdul Aziz Bin Saud کے بیٹے اور بھتیجے ہیں یا پوتے ہیں انھیں بھی ہر ماہ 10000 ڈالر دیے جاتے ہیں، اگر یہ شہزادے Abdul Aziz Bin Saud کی اولاد میں پہلی نسل میں آتے ہیں تو انھیں رقم دینے کا طریقہ مختلف ہے، انھیں تیل کے بیرل دیے جاتے ہیں جنھیں فروخت کر کے وہ رقم حاصل کرتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں شہزادوں کے باوجود سعودی عرب سیاست میں بہت ہنگامہ نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے شہزادوں کی خواہشوں کو مختلف اداروں میں اہم منصب دے کر پورا کر دیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران وزارت داخلہ، دفاع اور خزانہ پر All Saud کے اہم شہزادوں کی عمل داری رہی ہے، اس کے علاوہ فوج کے مختلف شعبوں اور نیشنل گارڈز جیسے اداروں کی ذمہ داری بھی کسی شہزادے کو ہی دی گئی ہے، اختیار کی اس تقسیم سے حکومت میں استحکام برقرار رکھا گیا ہے۔

Courtney Ferrer کہتے ہیں: اس سے فیصلہ سازی اور نفاذ کے عمل میں وقت لگتا ہے کیونکہ اس عمل میں شاہی خاندان کے کئی لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے شاہی خاندان کی موجودگی کے سبب حکومت کے کام کاج میں دقت بھی آ سکتی ہے۔ فریر کہتے کہ اتنے زیادہ جانشینوں کی موجودگی میں کئی شہزادے تخت کے خواہش مند بھی ہو سکتے ہیں، ایسے حالات میں موجودہ بادشاہ اور حکومت کے استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ موجودہ بادشاہ Salman bin Abdulaziz کے اکثر بھائی وفات پا چکے ہیں، 2015میں Salman bin Abdulaziz نے اپنے بھتیجے Crown princeMohammad Nayef  مقرر کیا تھا  لیکن تقرری کے کچھ عرصے بعد ہی بیمار King Salman نے اپنے حوصلہ مند بیٹے Mohammad Bin Salman کو نائب ولی عہد مقرر کیا۔ دو سالوں میں صورت حال کچھ ایسی تبدیل ہوئی کہ س Salman نے اپنے بھتیجے کی جگہ اپنے بیٹے Mohammad Bin Salman کو ولی عہد نامزد کر دیا اور تخت نشینی کی روایت ٹوٹ گئی۔ بی بی سی کے مطابق پھر نومبر میں تین واقعات رونما ہوئے جنھوں نے سعودی عرب کو بدل دیا۔ یمن کے باغیوں کی طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل داغا گیا جسے ریاض کے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے پہلے ہی تبار کر دیا گیا۔ اور پھر نصف رات کو سیاسی دھماکہ اس وقت ہوا جب درجنوں شہزادوں، امرا اور سابق وزرا کو یا تو گرفتار کر لیا گیا یا انھیں معزول کر دیا گیا۔ 32 سالہ Crown Prince Mohammad bin Salman کا یہ نئے سعودی عرب میں حکومت پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ Ahmed Zaki کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پہلے نہیں دیکھا گیا۔ پہلے حکومت 7 یا 8 بھائیوں کے درمیان مشترک رہتی تھی لیکن اب اقتدار ایک شخص کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حالات بہت غیر مستحکم ہیں۔

No comments.

Leave a Reply