مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی کے ہتھکنڈے:رپورٹ

اسرائیلی حکومت نے 5 دسمبر 1949ء کو اعلان کر ڈالا کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا

اسرائیلی حکومت نے 5 دسمبر 1949ء کو اعلان کر ڈالا کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا

نیوز ٹائم

چھ دسمبر 2017ء کو آخر بلی تھیلے سے باہر آ گئی، جب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکی سفارت خانہ اگلے 3 برس میں تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا جائے گا۔ امریکی صدر نے مختلف وجوہ کی بنا پر یہ متنازع قدم اٹھایا جن میں امت مسلمہ کی نااتفاقی، یہود سے قربت،  امریکا میں عیسائی صیہونیوں کا بڑھتا اثرورسوخ اور کاروباری مفادات نمایاں ہیں۔  مشرق وسطیٰ کے بعض ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس ضمن میں  ایک بااثر عرب شہزادے کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ اچانک ضرور ہے مگر غیر متوقع نہیں،  یہ برطانیہ اور امریکا ہی ہیں جن کے بل بوتے پر یہود اسرائیل کا قیام عمل میں لائے۔  جب 1917ء  میں اعلان بالفور کے ذریعے یہودی بینک کاروں اور سرمایہ داروں نے برطانوی حکومت کی حمایت سے اسرائیل قائم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا،  تو 1919ء میں امریکی حکومت نے بھی سرکاری طور پر اس اقدام پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔

21 ستمبر 1922ء کو امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے یہ قرارداد منظور کر لی کہ فلسطین میں یہود کے لیے ایک وطن قائم کیا جائے گا۔ دراصل 20ویں صدی کے اوائل تک یہودی سرمایہ دار امریکا میں ایک بڑی قوت بن چکے تھے۔ ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے امریکی حکمران طبقہ یہود کے مفادات کا نگران بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم  کے بعد امریکا نے فلسطین میں مقیم یہود کو وافر تعداد میں جدید ترین اسلحہ دیا۔ اسی اسلحے کی بدولت یہود کم تعداد میں ہونے کے باوجود عرب افواج پر غالب آ گئے اور انہوں نے اپنی مملکت اسرائیل قائم کر لی۔

29 نومبر 1947ء کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار دیا کہ یروشلم کو ایک بین الاقوامی شہر کا درجہ دے دیا جائے  کیونکہ وہاں دنیا کے تین بڑے مذاہب عیسائیت، اسلام اور یہودیت کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ مگر یہود نے زبردستی اس مقدس شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہی نہیں، اسرائیلی حکومت نے 5 دسمبر 1949ء کو اعلان کر ڈالا کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دے چکی تھی،  اسی لیے دنیا کے کسی بھی ملک نے اسرائیلی فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔ بیشتر ممالک نے تل ابیب ہی میں اپنے سفارت خانے کھولے اور بیت المقدس میں سفارتی سرگرمیاں انجام دینے سے گریز کیا۔

20ویں صدی کے آخری دہائیوں میں یہ صورتحال سامنے آئی کہ خطے میں دو مملکتیں اسرائیل اور فلسطین قائم کر دی جائیں۔ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ لہذا وہ مستقبل کی ریاست فلسطین کا دارالحکومت قرار پایا۔ مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بننا تھا۔ دنیا کے تقریبا سبھی ممالک نے اس صورت کو تسلیم کر لیا اور قرار دیا کہ یوں خطے میں امن و امان آ سکے گا۔

امریکا شروع دن سے مملکت اسرائیل کو بھاری مالی و عسکری امداد دے رہا ہے۔اسی امداد  کے ذریعے اسرائیل، مشرق وسطی ہی نہیں دنیا میں ایک بڑی عسکری و معاشی قوت بن گیا۔ جب دو مملکتیں قائم کرنے کا نظریہ سامنے آیا، تو امریکی حکمران طبقے نے 8 نومبر 1995ء کو یروشلم ایمبیسی ایکٹ منظور کر لیا۔ اس قانون کے ذریعے قرار پایا کہ مئی 1999ء  تک امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔

اسرائیلی حکومت مگر مملکت فلسطین کے قیام میں رکاوٹیں ڈالنے لگی۔ اس سلسلے میں مختلف تجویز پیش کی گئیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے پھر یہ بھی کوشش کی کہ فلسطینیوں کی دو بڑی جماعتوں، الفتح اور حماس کے مابین پھوٹ ڈلوا دے۔ اس مشن میں وہ کامیاب رہیں۔ چنانچہ اسرائیلی سازشوں کے باعث اب تک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آ سکا۔

1995 کے بعد آنے والے تمام امریکی صدور نے یروشلم ایمبیسی ایکٹ پر عملدرآمد نہیں کیا وہ اسرائیل ۔ فلسطین مسئلے میں غیر جانبدار رہنا چاہتے تھے۔ تاہم صدر ڈونالڈ ٹرمپ قدامت پسند لیڈر ہیں۔ پھر انہوں نے انتخابی مہم میں سفید فام قدامت پسند ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانہ یروشلم لے جائیں گے۔ اسی لیے انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔حسب توقع دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی گئی۔عالم اسلام کے سبھی بڑے ممالک میں امریکی صدر اور امریکا و اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوئے۔غزہ میں تو مظاہرین پہ اسرائیلی فوج نے بمباری کر دی جس سے 4 فلسطینی شہید اور کئی زخمی ہو گئے۔ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف احتجاج تاحال جاری ہے۔

امریکا دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے علی الاعلان بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا۔ اب رفتہ رفتہ خصوصا یورپ کے ممالک بھی امریکا کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ اگرچہ بیشتر یورپی ملکوں نے فی الحال ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار ناخوشی کیا ہے۔یہ فیصلہ یقینا صدر ٹرمپ نے تنہا نہیں کیا، انہیں حکمران جماعت، ریپلکن پارٹی کے بیشتر ارکان کانگریس کی حمایت حاصل کی ہو گی۔ یہ عین ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ یہ بھی سمجھتے ہوں کہ اس فیصلے سے شور تو بہت بلند ہو گا مگر خاص طور پر اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ امریکا کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کر سکیں۔

اس وقت متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائشیا، ترکی، انڈونیشیا، قطر، مصر، کویت، الجزائر اور پاکستان، امریکا کے تجارتی ساتھیوں میں شامل نمایاں اسلامی ملک ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ متنازع فیصلے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ درج بالا اسلامی ممالک زبانی جمع خرچ ہی سے احتجاج کریں گے یا تجارتی تعلقات ختم یا محدود کر کے بھی اپنی ناراضی دکھائیں گے۔ماضی میں سعودی شاہ فیصل نے امریکا کا تیل بند کر کے وہاں ہلچل مچا دی تھی۔ اب ٹرمپ نے  امت مسلمہ کو للکار کر دیکھنا چاہا ہے کہ کوئی  جی دار اور غیرت مند اسلامی حکمران موجود ہے یا کرسیوں پر سبھی مفادات کے اسیر بیٹھے ہیں۔

1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فوج نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس جنگ کے دوران فلسطین سے 7.5  لاکھ فلسطینی مسلمان گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ فلسطینی اس آفت عظیم کو خوفناک تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا مگر صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان سے رفتہ رفتہ صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ وجہ یہ کہ اسرائیلی حکومت مختلف اقدامات سے مشرقی بیت المقدس کو ہتھیانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ ان اقدامات کی داستان عیاں کرتی ہے کہ عالم اسلام خواب ِغفلت سے بیدار نہ ہوا  تو اسرائیل پورے بیت المقدس کو ہڑپ کر لے گا اور ڈکار بھی نہیں مارے گا۔

مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی کے ہتھکنڈے:

مشرقی بیت المقدس ہی میں مسجد اقصی اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات واقع ہیں۔ امت کے نزدیک یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد عالم اسلام کا تیسرا مقدس ترین شہر ہے۔ اسی لیے تمام مسلمان بیت المقدس کو بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب 1948ء میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کیا،  تو وہاں مقیم سبھی مسلمان مشرقی حصے میں منتقل ہو گئے تھے۔ پھر 1967ء  میں مشرقی بیت المقدس پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا۔ تب سے اسرائیلی حکومت ایسے مختلف اقدامات کر رہی ہے جن کے ذریعے نہ صرف بیت المقدس سے زیادہ سے زیادہ مسلمان بے دخل ہو جائیں  بلکہ مقامی آبادی میں یہود کی تعداد بڑھ سکے۔

1980 میں اسرائیلی حکومت نے یروشلم ایکٹ نامی قانون منظور کر لیا۔ اس قانون کے تحت تمام اسرائیلی قوانین مشرقی بیت المقدس پر بھی لاگو کر دیئے گئے۔ مقصد یہی تھا کہ مشرقی بیت المقدس پر اپنے قبضے کو مستحکم کیا جا سکے۔ اسرائیلی حکمران طبقے کی منشا یہی ہے کہ پورے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنایا جائے۔ یہ منزل پانے کی خاطر اسرائیلی حکومت اپنی پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور دیگر انتظامی اداروں کو بھی یروشلم میں لے آئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ یہود نے فلسطین میں مسلمانوں سے زمینیں خرید کر انہیں بے دخل کیا۔ اسرائیلی حکومت مشرقی بیت المقدس میں بھی اسی پالیسی پر کاربند ہو گئی۔ یہی نہیں، زمینیں چھیننے کی خاطر زور زبردستی سے بھی کام لیا گیا۔ مسلمانوں کی زمینیں ہتھیا کر وہاں یہودی بستیاں قائم کی جانے لگیں۔ آج مشرقی بیت المقدس کا 86 فیصد حصہ اسرائیل کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔ اس علاقے میں تقریبا پونے 5 لاکھ لوگ بستے ہیں۔ ان میں 58 فیصد مسلمان ہیں اور بقیہ یہودی۔ مگر مسلمانوں اور یہود کے معیار زندگی میں زمین، آسمان کا فرق ہے۔ یہود کو سرکاری طور پر تمام سہولیات و آسائش میسر ہیں جبکہ مسلمانوں کو بنیادی سہولیات زندگی دیتے ہوئے بھی قسم قسم کی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ مدعا یہی ہے کہ مشرقی بیت المقدس کے مسلمان اپنی جائیدادیں یہود کو فروخت کر کے مغربی کنارے یا غزہ چلے جائیں۔

آج مشرقی بیت المقدس میں واقع یہودی بستیوں میں 2 لاکھ یہود آباد ہیں۔ یہ تمام بستیاں فلسطینی مسلمانوں سے ہتھیائی یا خریدی زمینوں پر بنائی گئی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ اس نے عین اسلامی محلوں کے درمیان بھی ایک یہودی بستی قائم کر دی۔ وہاں اسرائیلی فوج کی حفاظت میں دو ہزار یہودی رہتے ہیں۔  2002 میں اسرائیل نے مغربی کنارے میں ایک دیوار بنانا شروع کی جو علاقے میں سانپ کے مانند بل کھاتی پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں مسلمانوں کے قصبوں، دیہات، محلوں اور خاندانوں کو تقسیم کر دیا۔ لہذا اب مسلمانوں کو ایک جگہ سے دوسرے مقام تک جانے  میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دیوار مشرقی بیت المقدس میں آباد مسلمانوں کی مشکلوں میں اضافہ کرنے کی خاطر بھی بنائی گئی۔ مستقبل کی فلسطینی ریاست میں مغربی کنارا اور غزہ پٹی شامل ہوں گے۔ اسرائیلی حکومت مگر مغربی کنارے میں بیت المقدس کے نزدیک زیادہ سے زیادہ یہودی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان بستیوں کو یروشلم کا حصہ دکھا کر اس علاقے پر بھی قبضہ کیا جا سکے۔ ان یہودی بستیوں کی زیادہ تعداد مشرقی بیت المقدس کے نزدیک واقع ہے۔ یہ بھی اسرائیلی حکمران طبقے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ ان بستیوں میں تقریبا 2 لاکھ یہودی آباد ہیں۔ اگر اسرائیل نے ان بستیوں کو مشرقی بیت المقدس کا حصہ بنایا، تو علاقے میں مسلمان اقلیت میں بدل جائیں گے۔ اسرائیلی حکومت یہی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمان پھر مشرقی بیت المقدس کو مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہ بنا سکیں۔ یہودی اکثریت ہونے کے ناتے علاقے پر ان کا دعوی کمزور پڑ جائے گا۔ مشرقی بیت المقدس میں رہائش پذیر مسلمانوں کو مکان، دفتر یا دکان بنانے اور کاروبار شروع کرنے کی خاطر بلدیہ شہر سے لائسینس لینا پڑتا ہے۔ لیکن یہودی بلدیہ مسلمانوں کی 99 فیصد درخواستیں نامنظور کر دیتی ہے۔ یہ اسرائیلی حکومت کا مسلمانان مشرقی بیت المقدس پر ایک اور کاری وار ہے۔ مسلمانوں کو پھر اجازت نامے کے بغیر گھر یا دکان تعمیر کرنا پڑتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق علاقے میں ایسی 20 ہزار تعمیرات وجود میں آ چکیں جو اسرائیلی قانون کی رو سے غیر قانونی ہیں۔

بیت المقدس میں سوا 3 لاکھ فلسطینی مسلمان آباد ہیں۔ ان میں صرف 59 فیصد کو پانی، عوامی ٹرانسپورٹ، سیوریج لائنوں اور دیگر سرکاری سہولیات حاصل ہیں۔ بقیہ 140000 فلسطینی گویا بے بس و مجبور عوام کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ مزید یہ کہ  اسرائیلی حکومت نے ان پر ٹیکسوں کا انبار لاد رکھا ہے۔ ان تمام مصائب کی وجہ سے مشرقی بیت المقدس میں مقیم مسلمان رفتہ رفتہ ہجرت کر کے مغربی کنارے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی حکمران طبقے نے بیت المقدس پر قبضے کا جو شاطرانہ اور ظالمانہ پلان تیار کیا ہے، اس میں اسے کامیابی ملتی نظر آتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply