بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت 1581 ارکان پارلیمنٹ پر سنگین مقدمات

مودی حکومت میں 31 فیصد وزرا کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں

مودی حکومت میں 31 فیصد وزرا کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی Panama Papers کیس میں اعلی عدلیہ کی طرف سے نااہلی جیسا واقعہ بھارت کی ماضی کی تاریخ بھگت چکی، جب جون 1975 ء میں ایک طاقتور وزیر اعظم Indra Gandhi کو عدالت نے نااہل قرار دے دیا تھا۔ دوسری طرف بھارتی قانون میں کسی بھی سیاستدان کی نااہلی صرف 6 سال کے لئے ہے تاحیات نہیں، یعنی کوئی بھی سیاستدان 2 سال سے زائد سزا ہونے کی صورت میں سزا کی مدت پوری ہونے یا جیل سے رہائی کے 6 سال بعد وہ دوبارہ الیکشن لڑ سکتا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی رکن کی نااہلیت کی مدت کو ختم یا کم کر سکتا ہے۔ بھارت میں اس وقت سینکڑوں رکن پارلیمنٹ ہیں جن پر سنگین مقدمات ہیں انہیں جیلوں میں بھی بھیجا گیا اور آج کل وہ ضمانت پر ہیں، جن میں Lalu Pradash ، Amit Shah ، Awaisi اور کئی دیگر کے نام ہیں۔ گزشتہ 3 سال سے بھارت کے 1581 ارکان پارلیمنٹ کے خلاف قتل، کرپشن، بدعنوانی جیسے سنگین مقدمات ہیں  تاہم وہ اسمبلیوں اور اپنے عہدوں پر موجود ہیں، حتی کہ وزیر اعظم Narendra Modi کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ Narendra Modi حکومت میں 31 فیصد وزرا کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ Narendra Modi کی کابینہ کے 78 یونین وزرا میں 24 ورزا کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت کی ریاستی اسمبلیوں میں بھی وزرا کی بھاری تعداد کے خلاف مجرمانہ مقدمات ہیں، مجموعی طور پر 620 ریاستی وزرا میں سے 201 وزرا کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔ 7 وزرا کے خلاف قتل اور 6 وزرا کے خلاف تشدد سے متعلق مقدمات ہیں۔ Lok Sabha کے ارکان کی تعداد 542 ہے جن میں 112 کے خلاف اغوا، قتل، خواتین کے خلاف جرائم جیسے مقدمات درج ہیں۔

نواز شریف کی نااہلی کے بعد:

امریکی آن لائن اخبار International Business Times نے لکھا کہ نواز شریف کی نااہلی کا لمحہ پاکستان کی نازک جمہوری تاریخ میں اہم موڑ لے کر آیا ہے اور دیکھا جا رہا ہے کہ اب جمہوریت کس رخ جاتی ہے۔ پاکستانی جمہوریت کو ایک بالغ نظام کی طرف جانا چاہیے جہاں سیاسی طبقہ بہتر فیصلہ کرے مگر پاکستان میں جمہوریت افراتفری اور ختم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔ نواز شریف کی نااہلی جیسا واقعہ بھارت کی ماضی کی تاریخ بھگت چکی ہے، جب جون 1975  ء میں ایک طاقتور وزیر اعظم Indra Gandhi کو عدالت نے نااہل قرار دے دیا تھا۔  42سال قبل 1971ء کے Rahe Bareli in the Alok Sabha elections کے حلقہ سے Indra Gandhi نے Raj Narayan کو بھاری اکثریت سے شکست دی  جسے Raj Narayan نے Allahabad High Court میں چیلنج کر دیا۔ 12جون 1975ء کو Allahabad High Court کے Justice Jag Mohan Lal sahna نے سرکاری وسائل کے استعمال اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت Indra Gandhi کو نااہل قرار دے کر ان کی جیت کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا، اور Indra Gandhi کو 6 سال تک کسی بھی عہدہ رکھنے سے روک دیا گیا۔ حکمران جماعت کانگریس کو Indra Gandhi کا متبادل تلاش کرنے لئے 20 دن کا وقت دیا گیا۔  Indra Gandhi اس فیصلے پر شیرنی کی طرح دھاڑی اور اگلے ہی ہفتے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ اس فیصلے نے بھارت میں سیاسی بحران پیدا کر دیا اور 1975ء سے 1977ء تک یمرجنسی نافذ رہی۔ Indra Gandhi نے Allahabad ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر کے عبوری حکم امتناعی حاصل کر لیا جس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں کانگریس کی بھاری اکثریت کے بل بوتے پر 1975ء  میں 39ویں آئینی ترمیم منظور کروا لی جس کے تحت بھارتی آئین میں 392اے آرٹیکل متعارف کرایا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم اور اسپیکر کا انتخاب ملک کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی پارلیمنٹ کی بنائی گئی کسی کمیٹی کے سامنے چیلنج کیا جا سکے گا۔ اس نئے آرٹیکل کے مطابق جو شخص بھارت کا صدر، نائب صدر، وزیر اعظم یا لوک سبھا کا اسپیکر رہا ہو، انتخابات کے وقت اس کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہو گی اور وہ الیکشن لڑنے کا اہل ہو گا۔ اس ترمیم کے تحت یہ بھی طے کر دیا گیا کہ ان عہدوں پر منتخب ہونے والوں کے الیکشن پر بھی سوال نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے Indra Nehru Gandhi بنام Raj Narayan کیس میں اس آئینی ترمیم کو دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ 39ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور سپیکر کے انتخابات کے عدالتی جائزہ کا اختیار ختم کر دیا گیا جو بنیادی آئینی ڈھانچہ کے منافی ہے۔ علاوہ ازیں اس ترمیم سے صاف شفاف الیکشن سے متعلق بنیادی آئینی ڈھانچہ کی فہرست میں شامل نکتہ نمبر 17 بھی غیر موثر بنا دیا گیا تھا، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ اگر کوئی جماعت 23 نکاتی بنیادی آئینی ڈھانچے کے برعکس کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے  تو اسے متعلقہ معاملے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنا پڑے گا، اگر انتخابات میں عوام اسے مینڈیٹ دے دیں تو پھر وہ بنیادی آئینی ڈھانچے میں شامل متعلقہ معاملہ پر بھی ترمیم کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے1973ء میں ایک کیس میں 23 معاملات کو بھارتی آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ بھارت میں شازو نادر ہی سیاسی جنگیں عدالتوں میں لڑی گئی ہوں۔  عدالت نے اسی سال نومبر میں ان کی سزا ختم کر دی تھی اور یوں بھارتی عدلیہ کی آزادی جمہوری دنیا میں پوری طرح ناکام ہو گئی تھی، Indra Gandhi نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اس کی طاقت اس کے ہاتھ سے باہر نہیں جانی چاہیے تھی۔ سیاسی طور پر بھارتی جمہوریہ کا یہ کھٹن دور تھا۔

ایمرجنسی صورتحال حال کے بعد اندرا گاندھی انتہائی مضبوط ہو گئی، چاہے وہ اپوزیشن رہنما تھا یا میڈیا اس نے بیٹے سنجے کے ساتھ مل کر تمام مخالفوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ آخر کار آزادی کے 23 سال بعد کانگریس 1977ء کے انتخابات ہار گئی اور پہلی بار اقتدار سے باہر ہوئی۔ نواز شریف کے پاس جمہوریت انداز کو تبدیل کرنے اور اقتدار میں رہنے کیلئے اتنا گولہ باورد نہیں جتنا Indra Gandhi کے پاس تھا۔ نواز شریف نے اندرا گاندھی کی طرح عدالتی فیصلے کو سبوتاژ نہیں کیا اور نہ ملک میں ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کا سوچا۔ نواز شریف کی نااہلی بھی بھارت کی اسی مثال کی طرح ہے۔ نواز شریف بھی پاکستان کے ایک مضبوط رہنما ہیں، بھارت میں Indra Gandhi کے سامنے حزب مخالف کے رہنمائوں کا کوئی مضبوط تشخص نہیں تھا  Indra Gandhi کی مضبوطی میں دوسرے جس عنصر کا زیادہ دخل تھا وہ جواہر لعل نہرو کی بیٹی ہونا تھا،  جبکہ پاکستان میں ایسی صورت حال نہیں، پاکستان میں جمہوری ادارے بھارت کی مانند مضبوط نہیں،  انڈین نیشنل کانگریس کی طرح نواز لیگ مضبوط نہیں۔ نواز شریف پہلے ہی کئی محاذوں پر جدوجہد کر رہے ہیں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ تو دوسری طرف سیاسی دبائو اور تیسری طرف انتہا پسند ہیں نواز شریف کے پاس جمہوریت کو تبدیل کرنے اور اقتدار میں رہنے کیلئے اتنا گولہ باورد نہیں جتنا اندرا گاندھی کے پاس تھا۔ اس لئے وہ خاموشی سے مستعفی ہوئے اور چلے گئے جس طرح 20 ویں صدی کے آخر میں انہوں نے دو مرتبہ کیا تھا۔ انہوں نے Indra Gandhi کی طرح عدالتی فیصلے کو سبوتاژ نہیں کیا اور نہ ملک میں ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کا سوچا۔ نواز شریف کی روانگی یقینی طور پر ملک کے استحکام کے لئے پریشان کن ہے، پاکستان کے لوگوں نے 2013ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہوئے ان سے امیدیں لگائی تھی۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1951ء کا سیکشن 8 فور ارکان پارلیمنٹ کی فوری نااہلی کو تحفظ دیتا ہے۔ جولائی 2013ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایسے ارکان پارلیمنٹ یا ایم ایل جن پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں، انہیں عدالت کی طرف سے دو یا دو سے زیادہ سالوں کی جیل کی سزا سنا دی گئی ہے تو وہ فوری طور پر اپنے عوامی عہدوں سے نااہل ہوں گے، سپریم کورٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951ء کے سیکشن 8 فور کو معطل کر دیا جس میں یہ شق ارکان پارلیمنٹ کی فوری نااہلی کو تحفظ دیتی ہے اگر اس نے اعلی عدالت میں اپیل کر دی ہو۔ ستمبر 2013ء میں بھارتی کابینہ نے سپریم کورٹ کی طرف سے سزا یافتہ ارکان پارلیمنٹ کی فوری نااہلی کے حکم کو منسوخ کرتے ہوئے ایک آرڈیننس کی منظوری دے دی۔ مرکزی کابینہ نے آرڈیننس کے تحت سپریم کورٹ کے حکم کو منسوخ کرتے ہوئے convicted ارکان پارلیمنٹ کی فوری نااہلی کو تحفظ دیا، اور کہا کہ عوامی نمائندگی (ترمیم اور توثیق) آرڈیننس اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایسے ارکان پارلیمنٹ اور ایم ایل اے اپنے فرائض جاری رکھ سکتے ہیں  اگر ان کی اپیلیں اعلی عدالتوں نے 90 روز میں منظور کر لی ہوں، تاہم ایسے ارکان ایوان کی کارروائی کے دوران ووٹ استعمال کرنے، تنخواہ اور دیگر مراعات کے حق دار نہیں ہوں گے جب تک ان کی اپیلوں کا حتمی فیصلہ نہ آ جائے۔

No comments.

Leave a Reply