بھارت کو ”را” کے گرفتار ایجنٹس تک رسائی نہیں دی جائے گی

''را'' کے ایجنٹ کلبھوشن یادو

”را” کے ایجنٹ کلبھوشن یادو

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارت کو پاکستان میں قید ”را” کے ایجنٹ Kulbhushan Jadhav  اور Hamid Nehal Ansari تک رسائی نہیں دی جائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت نے نئے سال کے موقع پر ایک دوسرے کے پاس قید اپنے شہریوں کی فہرست کا تبادلہ کیا ہے۔ ایسی فہرست میں ان لوگوں کا نام شامل ہوتا ہے،  جو غلطی سے سرحد پار کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جن میں بڑی تعداد ماہی گیروں کی ہوتی ہے۔ پاکستان دفتر خارجہ کے مطابق اس فہرست میں ان دونوں بھارتی جاسوس کے نام درج نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت، قونصلرز کی رسائی کے معاہدے کے تحت اس فہرست کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ 21 مئی 2008ء کو دونوں ملکوں کے درمیان ہوا تھا کہ دونوں ممالک اپنے ہاں قید ایک دوسرے کے شہریوں کی فہرست مہیا کریں گے۔ قیدیوں کی اس فہرست کا تبادلہ سال میں دو مرتبہ ہوتا ہے۔ پہلی بار یکم جنوری دوسری بار یکم جولائی کو۔ اس بار بھارتی وزارت خارجہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ پاکستان میں قید بھارتی شہریوں Hamid Nehal Ansari اور Kulbhushan Jadhav تک اپنے قونصلرز کی رسائی چاہتا ہے۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت ”را” کے گرفتار ایجنٹوں تک رسائی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ Kulbhushan Jadhav اور Hamid Nehal Ansari پاک، بھارت سرحد پر نہیں پکڑے گئے تھے، Kulbhushan Jadhav پاک، ایران سرحد سے پاکستان میں داخل ہوا تھا اور Hamid Nehal Ansari افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ اور یہ دونوں جاسوسی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ سے جب سوال کیا کہ کیا قیدیوں کی اس فہرست میں Kulbhushan Jadhav اور Hamid Nehal Ansari کا نام شامل ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ اس کا علم نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں مجرم ہیں اور ہم انہیں مجرم ہی سمجھتے ہیں۔ بھارت اس مسئلے کو سیاسی بنا رہا ہے۔ جبکہ دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کو دی جانے والی فہرست میں ان دونوں قیدیوں کے نام نہیں شامل ہیں۔ اور یہ کہ Kulbhushan Jadhav کے انکشافات پر مبنی وثیقہ پاکستان نے تیار کر لیا ہے، جن سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت اور اس کے تنیجے میں دہشت گردی کے ثبوت ملتے ہیں۔ یہ ثبوت جلد ہی اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل Antonio Guteres کو پیش کئے جائیں گے۔

ان ذرائع کے مطابق جہاں تک Hamid Nehal Ansari کا تعلق ہے تو ممبئی کے رہنے والے اس بھارتی شہری کو 2012ء میں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے کوہاٹ کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ممبئی سے Kabul تک بھارتی پاسپورٹ پر پہنچا تھا اور پھر پشاور سے ہوتا ہوا کوہاٹ کے ہوٹل میں جا کر ٹہر گیا۔ جب Hamid Nehal Ansari کو گرفتار کیا گیا تو اس نے پہلے ہی مرحلے میں یہ اعتراف کر لیا کہ وہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را” کا ایجنٹ ہے۔ گرفتاری کے وقت اس کے پاس سے پاکستان کی حساس تنصیبات کے نقشے اور تصاویر بھی برآمد ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس 7 افراد کے فیس بک اکائونٹ اور پاکستان میں موجود اپنے سورسز  کے 30 ای میل ایڈریس بھی تھے۔ Hamid Nehal Ansari کی عمر اس وقت 32 سال ہے۔ پاکستان میں اس کی گرفتاری کو سپریم کورٹ کے حکم پر پشاور ہائی کورٹ کے سامنے ظاہر کیا گیا تھا۔ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی مدد سے Hamid Nehal Ansari کی ماں Fauzia Ansari نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہیومن رائٹس سیل کو درخواست دی۔ جس پر سپریم کورٹ کے لاپتہ افراد کے کمشین نے 10 اپریل 2014ء کو خیبر پختون کی وزارت داخلہ کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائے جو حامد انصاری کو تلاش کرے۔ اس حوالے سے کرک شہر میں ا یک ایف آئی آر بھی رجسٹر کرائی گئی۔ فروری 2016ء میں بتایا گیا کہ وہ پاک فوج کی تحویل میں ہے۔ چنانچہ اس بنا پر Hamid Nehal Ansari کی ماں کی پٹیشن خارج کر دی گئی۔   اس کے بعد بھارت نے پاکستان،انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے پلیٹ فارم سے حامد نہال انصاری کے لیے انسانی حقوق کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ اس فورم کی سرپرستی اور نگرانی سابق بھارتی سفارت کار مانی شنکر  کے ذمے ہے۔ یہ فورم Hamid Nehal Ansari کی رہائی کے لیے سرگرم ہے، جو پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے یہ پروپیگنڈہ بھی شروع کر دیا تھا کہ وہ خیبر پختون کی ایک خاتون کی محبت میں گرفتار ہو کر پاکستان آیا۔لیکن وہ خاتون کون ہے؟ بھارتی میڈیا یہ نہیں بتا پایا۔

واضح رہے کہ Kulbhushan Jadhav کی گرفتاری کے بعد نومبر 2015ء میں بھارتی ریاست اترپردیش کی پولیس نے ایک شخص کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہہ کر گرفتار کیا اور اس کا نام Mohammad Kalam Uraf  Muhammad Ejaz بتایا۔ بھارتی انیٹلی جنس ایجنسی ”را” نے اس کی تصویر اور دیگ رکوائف جاری کئے۔ لیکن نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے نے اس تک رسائی کا مطالبہ کیا اور نہ ہی اس گرفتاری پر حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی احتجاج کیا گیا۔ پاکستان نے Kashmir Singh کے تجربے کے بعد بھارتی جاسوس Sarabjit Singh تک بھارتی سفارت خانے کے قونصلر کو رسائی نہیں دی، جبکہ بھارت مسلسل اس کا مطالبہ کرتا رہا تھا۔ یہاں تک Sarabjit Singh پر کوٹ لکھپت جیل لاہور میں حملہ ہوا اور اس کی حالت نازک ہو گئی۔ بعد ازاں پاکستان نے بھارت سے آنے والے Sarabjit Singh کے خاندان والوں کو اسے دیکھنے کی اجازت دے دی، لیکن Sarabjit Singh کی حالت نازک تھی اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ بھارتی حکومت اس کی موت پر تین دن کا سوگ منایا اور اس کے اہلخانہ کو ایک کروڑ روپے بھی دیئے۔ اگر وہ بھارتی جاسوس نہیں تھا تو اس کے لیے قومی سوگ کیوں منایا؟ ماضی میں بھی پاکستان نے انڈر کور کام کرنے والے درجنوں بھارتی جاسوس کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں Ravindra Kaushik  نامی جاسوس بھی تھا، جو ختنہ کرا کے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ اسے بھارتی بلیک ٹائیگر کہتے تھے۔ اس نے Nabi Ahmad Shakir کے نام سے پاکستان میں آرمی میں ملازمت اختیار کی تھی۔ 1983ء میں اسے گرفتار کیا گیا اور 1999ء میں وہ ملتان جیل میں حرکت قلب بند ہونے سے مر گیا۔  بالی ووڈ  نے اس پر فلم بھی بنا رکھی ہے۔ بین الاقوامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے قانون کے آرٹیکل 29 کے مطابق اگر کسی شخص کو جاسوس قرار دے دیا جاتا ہے، تو اس کے ملک کے سفارت کار سے ملنے سے اسے نہیں روکا جا سکتا۔ لیکن پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے جاسوس کے مقدمات فوجی عدالتوں  میں چلائے جاتے ہیں۔ اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی ملک اس قانون کا حوالہ نہیں دیتا۔ بلکہ امریکی بھی Shakeel Afridi کی رہائی کے لیے اس قانون کو نہیں استعمال کرتا۔ کیونکہ پھر اس سے بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے یہاں موجود قیدیوں پر بھی اس قانون کا اطلاق کرے۔

No comments.

Leave a Reply