پاکستان کی امریکا سے تعلقات کی بحالی میں بے چینی

امریکی، پاکستان کو چھوڑنے پر تیار ہے اور نہ ہی پاکستان، امریکا کو چھورنے پر تیار ہے

امریکی، پاکستان کو چھوڑنے پر تیار ہے اور نہ ہی پاکستان، امریکا کو چھورنے پر تیار ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکا کی طرف سے پاکستان کو کھلی دھمکیوں، الزامات اور امداد بند کرنے کے اعلانات کے باوجود نہ تو امریکی، پاکستان کو چھوڑنے پر تیار ہے اور نہ ہی پاکستان، امریکا کو چھورنے پر تیار ہے۔ نئے سال کے پہلے ہی دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف جس بے ہودگی اور ناشائستہ زبان کا استعمال کیا اس کے بعد تو پاکستان کے پاس نادر موقع تھا کہ برسوں کی غلامی کا لباس اتار کر پھینک دیا جائے اور ایک آزاد و خود مختار ملک کی طرح قومی غیرت کا مظاہرہ کیا جائے۔ فوری طور پر سول اور فوجی قیادت نے گرما گرم بیانات دیے اور کہا گیا کہ امریکا اپنی امداد اپنے پاس رکھے، ہمیں ضرورت نہیں۔ وزیر خارجہ Khawaja Asif جوش میں آ کر یہ بھی کہہ گئے کہ پاکستان اور امریکا اتحادی نہیں ہیں۔ لیکن خود ان کی وزارت خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ وزیر خارجہ محض اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے جو انہیں پاکستان پر امریکی الزامات کے خلاف تھا۔ لیکن وزارت خارجہ کا اپنے وزیر کے بیان کی وضاحت سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ خواجہ آصف کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے اتحادی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ عجیب بات ہے کہ دفتر خارجہ وزیر خارجہ کے بیان کی  تردید کر رہا ہے۔ اب خواجہ آصف کو چاہیے کہ اپنے دفتر سے وضاحت طلب کریں۔ یقینا Khawaja Asif نے جوش میں آ کر غیرت کا مظاہرہ کر دیا تھا مگر دفتر خارجہ کو اس کی تردید اور وضاحت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس پر خاموش بھی رہا جا سکتا تھا لیکن کیا وزارت خارجہ کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ امریکا کو غیر اتحادی قرار دینے سے کہیں وہ مزید برہم نہ ہو جائے۔ لیکن امریکا جو کچھ کر چکا ہے اور کر رہا ہے اس سے زیادہ برا اور کیا ہو گا۔ پاکستانی قوم سمجھ رہی تھی کہ امریکی امداد بند ہونے سے اب پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا اور وہ خود کفالت جس کا ہر حکمران خواب دکھاتا رہا ہے، شاید اب حاصل ہو جائے۔ لیکن امریکا کے غلاموں کو آزادی گوارہ نہیں۔ دوسری طرف امریکا کو بھی احساس ہے کہ پاکستانی تعاون کے بغیر وہ اس خطے میں کوئی اہم واردات کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ پورے ایشیا میں کوئی نیا خونیں کھیل تیار ہے۔

افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بربادی اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد اب ایران میں افراتفری پھیلا دی گئی ہے اور عوام کو اکسا کر ہنگامہ آرائی پر آمادہ کیا گیا ہے۔ ایران وہ ملک ہے جو کئی عشروں سے امریکی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ اور قومی وقار کا تحفظ کر رہا ہے۔ حکومت کے خلاف عوام کا احتجاج ایران کا اندرونی معاملہ ہے لیکن نہ صرف امریکا بلکہ کئی یورپی ممالک کی طرف سے ایرانی عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش سے کھیل سمجھ میں آ رہا ہے کہ اب ایران مغربی استعمار کا نشانہ ہے۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ کسی اور عرب ملک کی باری آ جائے جسے سیکولر بنا کر تباہی کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں علما  کرام کی گرفت کمزور کی جا رہی ہے۔ خطے میں سامراج کے نئے کھیل میں پاکستان کا کردار کیا ہو گا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان گو کہ سیکولر ملک نہیں ہے لیکن کئی مذہب بے زار عناصر اسے سیکولر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے سرخیاں ایوان بالا کے صدر نشین رضا ربانی ہیں۔ پاکستان کے کچھ برقی ذرائع ابلاغ بھی اس کھیل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہرحال، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس وقت تو پاکستان کے حکمران امریکا سے مذاکرات اور تعلقات کی بحالی میں بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔ وزیر دفاع نے فرمایا ہے کہ واشنگٹن دھمکیاں چھوڑ کر Top Strategic Dialogue کرے۔ دفتر خارجہ کہتا ہے کہ سیکورٹی تعاون پر ٹرمپ انتظامیہ سے رابطہ ہے اور ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان دھوکے باز ہے، 33ارب ڈالر کی امداد لے کر کھا گیا اور ٹکے کا کام نہیں کیا۔ اب اسی امریکا کی خوشامد ہو رہی ہے۔ ایک بار ہمت کر کے امریکا کو انکار تو کیا ہوتا، افغانستان کے لیے اس کی رسد کے راستے تو بند کر کے دیکھے ہوتے۔ لیکن حکمرانوں پر خوف طاری ہے کہ امریکی امداد بند ہو گئی تو حکمرانوں کے جلوے ختم ہو جائیں گے۔ دوسرا خوف یہ ہے کہ کہیں امریکا، افغانستان کی طرح پاکستان پر بھی فضائی حملے نہ کر دے۔ امریکا، پاکستان پر حملے تو کرے گا اور کر ہی رہا ہے لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آئے گا۔ اور ایسے حملے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ پاکستان کی بے تابی کے ساتھ امریکا نے بھی مصالحت کے پیغامات بھیجنے شروع کر دیے ہیں۔  پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا میں مذاکرات جاری ہیں۔ مختلف سطحوں پر باہمی دلچسپی کے معاملات پر پیغام، سلام کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکا کی طرف سے پاکستان کی امداد معطل کرنے کے ٹرمپ کے بیان کے فوری بعد امریکی وزیر دفاع James Mattis نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں تعینات  US Centcom commander نے Gen Qamar Bajwa  سے گفتگو کی ہے تاہم ترجمان نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ دونوں میں کیا بات ہوئی۔ ترجمان نے یہ بتانے سے بھی گریز کیا کہ اس وقت کس سطح پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اسی کے ساتھ وزیر دفاع Khurram Dastgir نے اعلان کر دیا کہ امریکا سے تعاون ختم ہو گیا۔ اب کیا وزارت دفاع کی طرف سے وضاحت آئے گی کہ یہ محض جذبات کا اظہار تھا۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اب روس سے دفاعی تعلقات بڑھائیں گے۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر David Hale اعتراف کر رہے ہیں کہ سلامتی کے مشترکہ مفادات میں تعاون علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ خیال رہنا چاہیے کہ امریکا جب مشترکہ مفادات کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ عالمی سلامتی سے اس کا کیا تعلق۔ دریں اثنا بھارت میں متعین امریکی سفیر Kenneth Jetter نے کہا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ گویا اب پاکستان کو چارہ ڈالا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس شاید اس کے سوا چارہ ہی نہیں۔

No comments.

Leave a Reply