امریکہ کی نئی جوہری حکمت عملی

دنیا میں کوئی بھی ملک تاحال میزائل حملے کو روکنے کے لئے کوئی موثر تحفظاتی نظام نہیں بنا سکا

دنیا میں کوئی بھی ملک تاحال میزائل حملے کو روکنے کے لئے کوئی موثر تحفظاتی نظام نہیں بنا سکا

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

اگرچہ دنیا میں کوئی بھی ملک تاحال میزائل حملے کو روکنے کے لئے کوئی موثر تحفظاتی نظام نہیں بنا سکا، امریکہ کا Patriot system ہو یا اسرائیل کا Aero or Iron Dome missile ، حملے کو روکنے کے لئے تاحال کسی بھی ملک کے پاس کوئی بھی موثر نظام نہیں ہے، بھارت کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس (BMD) کے سلسلے میں دعوے تو بہت ہیں مگر وہ اس صلاحیت کا حامل نہیں ہے کہ کسی میزائل کو روک سکے، خصوصاً پاکستان اور چین کے میزائلوں کو روکنا اس کے بس کی بات نہیں، اس سے پہلے اس کے پاس پرتھوی دفاعی نظام پرتھوی دفاعی گاڑی پر مشتمل تھا  جو اب تک کسی گنتی و شمار میں نہیں خود امریکہ، اسرائیل، روس اور چین صحیح معنوں میں اپنے میزائل کے دفاع کے لئے کوئی کارآمد نظام واضع نہیں کر سکے ہیں۔

تاہم چین نے حال ہی میں DF-21 میزائل سے حملہ آور میزائل کو روکنے کا تجربہ 5 فروری 2018ء کو کیا اور روس نے 12 فروری 2018ء سوویت ایرا A-135 میزائل کا تجربہ کیا۔ اس کے علاوہ چین نے DF-5C کے 10 میزائلوں کو MIRV سے 10 مختلف سمتوں میں میزائل داغنے کا تجربہ کر کے ایک بڑی کامیابی حاصل کی کیونکہ اس سے پہلے اس کے پاس نومبر 2017ء  تک 3 میزائلوں کو مختلف سمتوں میں داغنے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہ اور اس کی آواز سے 5 گنا زیادہ رفتار سے بنائی ہوئی ہدف کی طرف جانے کی رہنمائی کرنے والی گاڑی Hypersonic Guided Vehicle سے میزائل داغا جو منٹوں میں اپنے ہدف پر جا لگتا ہے۔ بھارت کے تجزیہ کار Brigadier Vinod کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی روس اور امریکہ کے پاس بھی نہیں ہے۔ مزید برآں چین نے Quantum سیارچہ کو خلا میں بھیج کر سائبر حملہ سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے جس سے امریکہ کافی پریشان ہے، چنانچہ اس صورتِ حال کے پیش نظر اس نے اپنے میزائل اور ایٹمی پروگرام کو جدید بنانے کا تہیہ کیا اور اس پر جو حکمت عملی وضع کی اس کو NPR-2018 (Nuclear Posture Review-2018) کا نام دیا اس کی اساس چار نکات پر رکھی۔

اسٹرٹیجک ماحول کی تبدیلی: امریکہ کا کہنا ہے کہ اسٹرٹیجک ماحول تبدیل ہو گیا ہے اور عالمی طاقتوں کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، اس لئے مستقبل کے منظر نامہ کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ہے صورتِ حال غیر یقینی ہو گئی ہے، جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امریکہ اپنی صلاحیتوں کو جدید تر بنائے تاکہ اس کی قومی حکمت عملی، وقت کے تقاضوں اور غیر یقینی صورتِ حال کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔

ایٹمی طاقت: ایٹمی ڈیٹرنس کا یہ تقاضا ہے کہ امریکی ایئر کرافٹ زمینی ذرائع پر دور مار میزائل اور آبدوزوں میں بھی جدید ایٹمی ہتھیار نصب ہوں اور ان میں باہمی رابطہ خفیہ ہو اور وہ امریکی صدر کے کمانڈ اور کنٹرول میں ہوں۔

میزائل دفاع: میزائل دفاع کا نظام ایسا ہو کہ جو امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہو، اس کی مسلح افواج، اس کے اتحادیوں کو بھی نہ صرف امریکہ میں بلکہ جہاں کہیں وہ تعینات ہیں  ان کی حفاظت کرتا ہو اور وہ ان کی طرف اڑتے ہوئے میزائلوں اس سے پہلے کہ وہ حملہ آور ہوں پہلے ہی مار گرائے۔

جدید ٹیکنالوجی کا حصول: دفاعی صلاحیتوں کی ازسر نوتعمیر اور انہیں جدید بنانے اور بہتر بنانا اس لئے ضروری ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار کو مسلسل موثر اور مزاحمتی بناتا رہے۔ امریکہ کے ایٹمی کمانڈ کے کمانڈر General John Eighton نے مزید کہا کہ امریکہ ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی استعداد بڑھا رہا ہے۔  ہم کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنی افواج کو تیار رکھتے ہیں۔ ہمارے بحری بیڑے جوہری میزائل سے لیس ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر ہم مزید کام کر رہے ہیں۔ 21 ویں صدی میں دفاعی چیلنجز پیدا ہوئے۔ روس ہمارا واحد حریف تھا، دنیا ہمہ قطبی ہو گئی ہے، ہمیں اب سائبر نیٹ ورک، خلا اور ایٹمی خوف کے معاملے میں خطرات کا سامنا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ہمارا کوئی حریف ہم سے زیادہ صلاحیت حاصل نہ کر لے۔ جوہری استعداد کو بڑھانے کے لئے ہمارے سائنسدان اور ماہرین اپنی بحری افواج، آفیسرز اور ٹیکنیشن کو جدید ریسرچ سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی تربیت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے حریفوں پر سبقت حاصل کرنے کیلئے تیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ کام ایک چیلنج ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ہمارے حریف ہم پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے جواب میں ہم بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان بحری فوجی ہر قسم کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ ایٹمی حملے کے ڈر و خوف نے دنیا کو 1945ء سے اب تک کسی بڑی جنگ سے روکا ہے تاہم جس رفتار سے معاملات چل رہے ہیں وہ دنیا میں ایٹمی دوڑ کو بڑھا دیں گے۔ بہت سے ملکوں کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہو گا، بھارت اپنا دفاعی بجٹ پہلے ہی بڑھا چکا ہے اور خرید و فروخت میں لگا ہوا ہے، اسرائیل سے اس کا یارانہ پرانا ہے، وہ بھارت کو قیمت کے عوض ایرو ڈیفنس سسٹم دے سکتا ہے۔ جواباً پاکستان کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا، پاکستان اس پر ضرور کام کر رہا ہو گا  تاہم امریکہ کی بالادستی تاحال قائم ہے، اس کے پاس ہارپ جیسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو موسموں میں تبدیلی لا سکتی ہے، زلزلہ، سونامی اور سیلاب جیسی تباہ کاریاں دنیا میں امریکہ لاتا رہا ہے، جرثومائی جنگ یا کیمیاوی جنگ بھی دنیا کے لئے تباہ کن ہو گی تاہم امریکہ کو یہ فکر ضروری دامن گیر ہو گئی ہے کہ روس اور چین دفاعی معاملات میں کہیں نہ کہیں اس سے آگے بڑھ جائیں گے۔ اگرچہ وہ مرحلہ شاید 10 سال میں آئے تاہم وہ ابھی سے اس کے سدباب میں لگا ہوا ہے اور جنگ کے حالات پیدا کر کے وہ دنیا میں اپنا سامانِ حرب بیچ کر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے اسباب پیدا کر رہا ہے۔ اس نے خصوصا افغانستان میں اپنے پرانے سارے روایتی ہتھیار آزما لئے ہیں، البتہ اسٹرٹیجک معاملات میں اس کو مقابلے کا سامنا ہے اس لئے وہ ایٹمی معاملے کو جدید بنانے میں لگ گیا ہے۔ مگر دیگر ٹیکنالوجیز میں دنیا سے کافی آگے ہے، وہ پاکستان کے سی پیک کو روکنے کے لئے کراچی میں سونامی کا شوشہ چھوڑ چکا ہے، مگر کراچی میں کبھی سونامی نہیں آیا اور بھارت گوادر کی بندرگاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، پڑوس کے ملکوں کی بندرگاہوں کو استعمال کرنے کا معاہدہ کر رہا ہے۔ اس کی یہ کوششیں چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو روکنے میں ناکام رہیں گی، گوادر کی بندرگاہ سے سارے خلیج میں جو خوف پیدا ہوا ہے وہ چند دنوں میں دور ہو جائے گا اور ماحول کافی سازگار ہو جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply