سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں اتحاد کرانے کی کوششیں

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف  کا سینٹ میں پوزیشن برقرار رکھنے پر رابطہ

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا سینٹ میں پوزیشن برقرار رکھنے پر رابطہ

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے بائونس بیک نے ان قوتوں کو نئے سرے سے پلاننگ پر مجبور کر دیا ہے، جو ایوان بالا میں حکمراں پارٹی کو اکثریت سے روکنے کی خواہش مند تھیں۔ سینیٹ الیکشن سے پہلے بلوچستان میں نواز لیگ کو پہنچایا جانے والا سیاسی دھچکا بھی اس خواہش کا عملی اقدامم تھا۔ تاہم مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ 15 امیدواروں کی سینیٹ الیکشن میں فتح نے اسے ایوان بالا میں سنگل اکثریتی پارٹی بنا دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اب سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی اس اکثریت کو غیر موثر بنانے کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ جس کے تحت حکمران پارٹی کو سینیٹ چیئرمین چپ سے محروم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد کرنے کی کوششوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے آصف زردراری متحرک ہو گئے ہیں۔ اس کے لیے پارٹی فوکس آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہونے والے سینیٹ ارکان پر ہے۔ جس کے لیے پارٹی کے شریک چیئرمین نے اپنے دو قابل اعتماد ساتھیوں کو بلوچستان بھیجا ہے۔

واضح رہے کہ سینیٹ 2018ء کے الیکشن میں بلوچستان اور فاٹا سے مجموعی طور پر 10 آزاد ارکان منتخب ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں جو 6 آزاد امیدوار جیتے ہیں، یہ سب مسلم لیگ ن کے باغی ارکان صوبائی اسمبلی کے حمایت یافتہ ہیں۔ لہذار یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے نامزد چیئرمین کے حق میں ووٹ دیں۔ ورنہ بلوچستان اسمبلی میں نواز لیگ کے خلاف بغاوت کراے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ اس طرح سے منتخب 4 آزاد ارکان سینیٹ میں سے ایک کی سپورٹ پیپلز پارٹی کو ملنے کی توقع ہے۔ پی پی ذرائع کے مطابق آزاد ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ پارٹی قیادت نے ایم کیو ایم پاکستان، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سے بھی رابطہ کرنے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

11 مارچ کو اپنی مدت پوری کر لینے والے 52 ارکان سینیٹ کی ریٹائرمنٹ اور حالیہ الیکشن میں منتخب نئے ارکان کے بعد ایوان بالا میں ایم کیو ایم کی 5، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی 4 اور جماعت اسلامی کی 2 سیٹیں ہوں گی۔جبکہ تازہ الیکشن میں سینیٹ کی 12 سیٹیں جیتنے والی پیپلز پارٹی کے مجموعی ارکان کی تعداد 20 ہے۔اگر پیپلز پارٹی بلوچستان کے 6 آزاد ارکان، فاٹا کے یک رکن، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)، ایم کیو ایم  اور جماعت اسلامی کے بالترتیب 5,4 اور 2 ارکان کی سپورٹ بھی حاصل کر لیتی ہے تو پھر بھی مجموعی تعداد 37 بنتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس میں بھی ایم کیو ایم کی 5 اور جمعیت علمائے اسلام ف کی 4 سیٹوں کو یقینی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اندرون خانہ چلنے والی بات چیت میں ان دونوں پارٹیوں کا زیادہ رجحان مسلم لیگ ن کی طرف ہے۔

ذرائع کے مطابق اسی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ مسلم لیگ ن کو چیئرمین شپ سے محروم کرنے میں آسانی رہے۔ سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کی 6 سیٹیں ملنے کے بعد ایوان بالا میں اس کے ارکان کی تعداد 12 ہو گئی ہے۔ پلاننگ کرنے والوں کے خیال میں اگر 20 سیٹیں رکھنے والی پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے 12 ارکان کی حمایت دلا دی جائے تو یہ تعداد 32 ہو جائے گی۔ جبکہ فاٹا اور بلوچستان کے نئے آزاد ارکان اور پہلے سے سینیٹ میں موجود 5 آزاد ارکان کو ملا کر نمبر گیم میں مسلم لیگ ن پر برتری حاصل کی جا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد کی صورت میں سینیٹ کا چیئرمین پی پی اور ڈپٹی چیئرمین پی ٹی آئی کا ہو گا۔

ذرائع کے مطابق سینیٹ چیئرمین کے لیے تحریک انصاف سے اتحاد پر آصف زرداری کو کوئی اعتراض نہیں، تاہم عمران خان کی طرف سے کچھ ہچکچاہٹ دکھائی جا سکتی ہے، جیسا کہ طاہر القادری کی ریلی میں دونوں رہنمائوں کو ایک ساتھ اسٹیج پر بٹھائے جانے کی کوششوں کے سلسلے میں ہوا تھا۔ تاہم عمران خان حکم عدولی کی پوزیشن میں نہیں۔ لہذار زیادہ امکان یہی ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے لیے سینیٹ کی سطح پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد کرا دیا جائے گا۔

دوسری جانب 15  سیٹیں جیت کر سینیٹ میں 33 ارکان کے ساتھ سرفہرست مسلم لیگ ن نے بھی اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے آزاد ارکان اور اتحادی پارٹیوں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ اتحادیوں کو ملا کر سینیٹ میں اس کے پاس 53 سیٹیں ہیں۔ لہذار وہ آسانی کے ساتھ اپنا چیئرمین سینیٹ لا سکتی ہے۔ اسلام اور لاہور میں موجودج مسلم لیگ کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ رابطوں میںمثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم پہلے ہی اسلام آباد میں حکمراں پارٹی کے دو امیدواروں کو ووٹ ڈال چکی ہے۔ ذرائع کے بقول اسی طرح جمعیت علمائے اسلام ف بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ سینیٹ میں اتحاد کی خواہش مند ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی سے اس سلسلے میں بات ہو رہی ہے، جبکہ نینشل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی جیسے اتحادیوں کو یقینی سپورٹ مسلم لیگ ن کو حاصل ہے۔  ذرائع نے بتایا کہ فاٹا کے چند آزاد امیدواروں سے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply