شمالی کوریا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والا امریکہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے

نیوز ٹائم

ذرا تصور کیجیے کہ آپ معاشی طور پر انتہائی مضبوط پوزیشن کے حامل ہیں لیکن آپ کے پڑوس میں آپ کے دشمن کے پاس خطرناک قسم کے ہتھیار ہوں،  جسے آپ کی ترقی ایک آنکھ نہ بھاتی ہو، جو کسی قسم کے قوانین کی پاسداری بھی نہ کرتا ہو اور پھر آپ کے علاقے کا تھانیدار بھی زبانی طور پر آپ کے ساتھ ضرور ہو لیکن حقیقت میں وہ آپ کے دشمن کے ساتھ کھڑا ہو اس صورت میں آپ اپنے آپ کو اور اپنے اہلخانہ کو کس قدر غیر محفوظ تصور کریں گے،  خاص طور پر اس وقت جب آپ پر اپنے دفاع کے لئے ہتھیار خریدنے اور استعمال کرنے کی سخت پابندی عائد ہو لیکن آپ کے پڑوسی دشمن کو ہر طرح کے ہتھیاروں کو رکھنے اور استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہو تو صورتحال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے،

یہی صورتحال اس وقت جاپان کے ساتھ بھی درپیش ہے  جہاں شمالی کوریا بطور ایک پڑوسی ملک جاپان کے لئے شدید احساس عدم تحفظ کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں سے لے کر ہائیڈروجن بم جیسے خطرناک ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ امریکہ جو علاقے کا تھانیدار ہونے کے باوجود شمالی کوریا کے ساتھ انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپانی عوام کو مزید عدم تحفظ میں مبتلا کر رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جاپان کے لئے صاف طور پر اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاپان میں امریکہ کی 40 ہزار سے زائد فوج تعینات ہے جس کے اخراجات کے لئے جاپان سے مزید رقم کا تقاضا کیا جائے گا اور اگر اضافہ نہ ہوا تو امریکہ کو جاپان سے اپنی افواج نکال لینی چاہئیں اور جاپان کو اپنی سلامتی کے لئے خود اقدامات کرنا ہوں گے،  اس خطرناک بیان سے جاپانی حکومت اور عوام میں شدید احساس عدم تحفظ پیدا ہوا کیونکہ جاپان نے ہمیشہ ہی اپنی سلامتی کے لئے امریکہ پر بھروسہ کیا ہے۔ جس کی اہم وجوہات ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سے شکست کے بعد امریکہ کی نگرانی میں بننے والے جاپانی آئین میں صاف طور پر یہ تحریر کرایا گیا تھا  کہ جاپان کے دفاع کی ذمہ داری امریکہ پر ہو گی اور امریکی افواج جاپان میں قیام کریں گی جبکہ جاپان ایک محدود تعداد میں افواج رکھ سکے گا  لیکن یہ افواج صرف جاپان کے دفاع میں استعمال ہوں گی اور جاپان کی سرحد سے باہر کوئی ایکشن نہیں کر سکیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ جاپان اپنے دفاع کے لئے دو لاکھ کے قریب افواج رکھتا ہے لیکن ان کا کردار محدود ہے جبکہ امریکہ کی 40 ہزار سے زائد افواج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جاپان، امریکہ کے کئی دفاعی معاہدوں میں شامل ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جاپان کی سلامتی کا ذمہ دار امریکہ ہے  یہی وجہ ہے کہ جاپان نے اپنی تمام تر توجہ صنعتی ترقی پر مرکوز رکھی ہے جس کے نتیجے میں جاپان دنیا کی معاشی سپر طاقت تو بن گیا لیکن ماضی کی دشمنی اور ملک میں آمریت نے شمالی کوریا کو خطرناک دفاعی طاقت بنا دیا،  شمالی کوریا کو خطرناک اور غیر ذمہ دار دفاعی طاقت بننے میں چین اور امریکہ کا کردار بھی قابل ذکر ہے،  کیونکہ امریکہ نے عالمی تھانیدار ہونے کے باوجود شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر نظر نہ رکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کی  جبکہ چین کی حمایت اور مدد نے ہمیشہ شمالی کوریا کو طاقت فراہم کی۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو یہ بات مان لینی چاہیے کہ اسے اپنے دفاع کے لئے دو پڑوسی ممالک کی ضرورت تھی جہاں وہ اپنی حکمت عملی کے ذریعے اپنی جغرافیائی سلامتی کا تحفظ کر سکے اور اپنی جنگ دوسروں کی سرزمین پر لڑ سکے۔ جس میں چین پوری طرح کامیاب بھی رہا ہے، اس نے شمالی کوریا کو طاقت اور حمایت دے کر اپنی مشرقی سرحدیں محفوظ کر لی ہیں لہذا جاپان اور جنوبی کوریا، چین تک پیش قدمی کرنا بھی چاہیں تو انھیں شمالی کوریا سے گزرنا ہو گا  اور شمالی کوریا کے پاس خطرناک ایٹمی ہتھیار کسی بھی ملک کو چین تک پیش قدمی کی اجازت نہیں دیں گے۔

دوسری جانب ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے جاپان اور جنوبی کوریا میں وسیع ترمفادات موجود ہیں جس کے لئے امریکہ دونوں ممالک میں اپنی افواج کی مستقل تعیناتی چاہتا ہے لہذا اپنی افواج کو رکھنے کے لئے کوئی جواز بھی ہونا چاہیے تو شمالی کوریا سے بڑھ کر جواز اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس لئے شمالی کوریا کو خطرہ بنا کر امریکہ اپنی افواج جاپان اور جنوبی کوریا میں رکھنے کا اہل ہو سکتا ہے اور شمالی کوریا کا خطرہ ہی جاپان اور جنوبی کوریا کو امریکہ پر دفاعی دارومدار قائم رکھنے کی وجہ بن سکا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو بند کرنے پر مذاکرات کیے جائیں گے تاہم شمالی کوریا نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر حامی بھرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی صدر کی شمالی کوریا کے حکمران سے ملاقات کے امکان پر جاپانی میڈیا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس ملاقات سے خطے میں کیا مثبت تبدیلی آ سکتی ہے  کیا شمالی کوریا، جاپان کے خلاف اپنے سخت موقف سے باز آ جائے گا یا پھر ملاقات کی ناکامی کی صورت میں خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس وقت جاپانی عوام میں، دفاع میں خود مختار ہونے کی سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ ماضی میں جاپان اور چین کے درمیان جزیروں کی ملکیت پر کشیدگی پیدا ہونے پر جب جاپان نے امریکہ سے مدد طلب کی تو امریکہ نے جاپان کو واضح پیغام دے دیا کہ یہ چین اور جاپان کا آپس کا معاملہ ہے لہذا وہ اس معاملے میں فریق نہیں بنے گا اور جاپان کو یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس خطرناک صورتحال میں امریکہ کا پیچھے ہٹ جانا جاپان کے لئے علامتی خطرہ تھا کہ امریکہ پر کس قدر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ جس کے بعد جاپان کے کئی ارکان پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جاپانی آئین میں تبدیلی لائے اور اپنی افواج میں اضافہ کرے اور جدید ہتھیاروں کی تیاری اور تعداد میں بھی ضافہ کرے تاکہ جاپان اپنی سلامتی کے لئے امریکہ کا زیرنگیں نہ رہے تاہم جاپانی حکومت نے اس مطالبے پر ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن لگتا ہے کہ جاپان اپنی سلامتی اور خودمختاری کے لئے امریکہ پر طویل عرصہ تک دارومدار نہیں کرے گا  اور جلد ہی آئین میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی مسلح افواج کو جدید خطوط پر تیار کرے گا جو ملک کا بہترین دفاع کر سکیں گی۔

No comments.

Leave a Reply