اگلی جنگ” نگراں حکومت کے لیے لڑی جائے گی”

اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگلی ''جنگ'' نگراں حکومت کے لیے لڑی جائے گی،

اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگلی ”جنگ” نگراں حکومت کے لیے لڑی جائے گی،

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

سینیٹ الیکشن کی جنگ حکمراں پارٹی ہار گئی ہے۔ اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگلی ”جنگ” نگراں حکومت کے لیے لڑی جائے گی، جس کی صف بندی شروع کر دی گئی ہے۔ اس ڈویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع کے مطابق سینیٹ الیکشن میں حکومت کو چت کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں کو نگراں حکومت تشکیل دینے کے مرحلے میں بھی جاود کی چھڑی دستیاب ہو گی۔ ذرائع کے مطابق نگراں سیٹ اپ کے لئے پیپلز پارٹی اپنی ”اجنبی پارٹنر” تحریک انصاف کا ان پٹ بھی لے گی۔ سینیٹ الیکشن میں ایک دوسرے کے بالواسطہ اتحادی بننے کی ڈیل کے موقع پر ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ طے ہو چکا ہے۔ لہذا اب جب اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر، وزیر اعظم کے ساتھ مذاکرات کا باقاعدہ سلسلہ شروع کریں گے تو انہیں نہ صرف اپنی پارٹی، بلکہ تحریک انصاف کی خواہشات کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔

نگراں سیٹ اپ کا مقصد صاف و شفاف الیکشن کر اکے ایک منتخب حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار کی منتقلی کرانا ہے۔ آئین میں 18ویں اور 20ویں ترمیم کے بعد نگراں سیٹ اپ، وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت کے  بعد لایا جاتا ہے۔ جبکہ دونوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے پر آٹھ رکنی کمیٹی، جس میں وفاق اور صوبوں، دونوں کے نمائندہ ارکان شامل ہوتے ہیں، نگراں وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کو نامزد کرتی ہے۔ اور اگر اس کمیٹی کے ارکان بھی 3 روز کے اندر نگراں سیٹ اپ پر متفق ہونے میں ناکام ہو جائیں تو پھر نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تقرری کا معاملہ لیکشن کمیشن پاکستان کو بھیجا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کی جنگ سینیت الیکشن سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز ہو سکتی ہے۔نگراں سیٹ اپ پر حکمراں مسلم لیگ ن اور حزب اختلاف پیپلز پارٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس حوالے سے متوقع سیناریو کی ایک مختصر تصویر پیش کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا  کہ گائیڈ لائن کے مطابق پیپلز پارٹی نگراں وزیر اعظم کے لئے مسلم لیگ ن کے سفارش کردہ ناموں کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس معاملے پر تحریک انصاف اس کا ساتھ دے گی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن بھی نگراں وزیر اعظم کے طور پر حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ ناموں کو ممکنہ طور پر مسترد کرے گی۔ کیونکہ دانستہ ایسے نام پیش کئے جائیں گے، جو کسی صورت مسلم لیگ ن کو سوٹ نہیں کریں گے۔ذرائع کے مطابق نگراں سیٹ اپ پر اتفاق رائے کے لیے تشکیل کردہ 8 رکنی کمیٹی بھی جب ناکام ہو جائے گی تو پھر یہ ایشو حتمی فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان کے پاس جائے گا۔

مسلم لیگ ن کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر نگراں سیٹ اپ کا معاملہ الیکشن کمیشن پاکستان کے پاس چلا گیا تو اس میں حکمراں پارٹی کو نقصان کا اندیشہ ہے۔ ان خدشات کا اظہار الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن کے لئے آنے والے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں ہی نگراں حکومت پر اتفاق رائے ہو جائے اور یہ معاملہ آگے نہ جائے۔ لیکن اس کے امکان کم دکھائی دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ شیڈول کے مطابق جنرل الکیشن جولائی کے وسط یا اگست کے اوائل میں ہونے ہیں۔ یوں اس سے تین ماہ قبل یعنی اگلے ماہ اپریل کے وسط  تک نگراں حکومت کا قیام عمل میں آ جانا چاہئے۔

ذرائع کا دعوی تھا کہ جنرل الیکشن کے حوالے سے بے یقینی کو جو دھند چھائی ہوئی تھی، وہ اب بھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن میں اگرچہ تاحال ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع نہیں ہوا ہے، لیکن جال بچھانے والوں کا خیال ہے کہ پانامہ کیس میں دستیاب شواہد کی بنیاد پر نواز شریف کا سزا سے بچنا مشکل ہے  اور یہ کہ نواز شریف کو سزا سنا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو مسلم لیگ ن کا اصل امتحان بھی اس وقت ہی شروع ہو گا۔ اگر نواز شریف کی ممکنہ جیل یاترا کی صورت میں مسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے تو پھر عام انتخابات وقت پر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ورنہ تین ماہ کے لئے قائم نگراں حکومت کا دورانیہ 6 ماہ یا ایک ساہ تک بڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ جائزہ رپورٹس مسلسل یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ متحدہ رہنے کی صورت میں مسلم لیگ ن دوبارہ دوتہائی اکثریت لے سکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق نگراں حکومت کے قیام کے بعد اگر مقررہ وقت پر جنرل الیکشن کو موافق تصور کیا جاتا ہے تو اس کے لیے پلان بی کے خدوخال بھی طے کئے جا چکے ہیں۔ جس کے تحت سینیٹ میں کامیابی کے لیے اختیار کردہ فارمولے کو آزمایا جائے گا۔ عام الیکشن سے قبل پی پی او تحریک انصاف دونوں کے درمیان انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرا دی جائے گی، اور بعد ازاں دونوں پارٹیوں پر مشتمل اتحادی حکومت بنانے کا پلان ہے۔ ذرائع کے مطابق چونکہ ابھی یہ مرحلہ دور ہے اور نگراں حکومت کے مرحلے کے بعد شروع ہو گا، لہذا اس سلسلے میں ابھی کوئی حتمی حکمت عملی طے نہیں کی گئی ہے۔ تاہم مختلف آپشنز کو کھلا رکھا گیا ہے۔  متذکرہ آپشن جس میں سے ایک ہے۔ اسی آپشن کے تحت پاور شیئرنگ کا فارمولہ بھی ترتیب دیا جائے گا۔ پی پی اور تحریک انصاف پر مشتمل مخلوط حکومت بننے کی صورت میں ڈھائی  برس کے لئے دونوں پارٹیوں کا وزیر اعظم لایا جا سکتا ہے۔ یہ فارمولا بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کی قیادت آزما چکی ہے۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کو آئندہ انتخابات میں واضح اکثریت سے روکنے کے لیے مختلف حکمت عملیان طے کی جا رہی ہیں۔ تقریباً 1988ء جیسی صورتحال ہے، جب جائزہ رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی دوتہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ ذرائع کے بقول چونکہ بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسکت ڈکلیئر کر دیا گیا تھا، لہذا ان کی پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی کو تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی، تاہم اسے دوتہائی اکثریت نہیں مل سکی تھی۔ ذرائع کے مطابق اب بھی 100 فیصد یقین کے ساتھ یہ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسم لیگ ن کے مخالفین کی جانب سے ترتیب دیئے جانے والے پلان پوری طرح کامیاب ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق ملک کے پاور سینٹرز کے سب سے اہم رکن دو پیرا میٹرز طے کر رکھے ہیں۔ایک یہ کہ خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی سے متعلق سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔اور یہ دوسرا یہ کہ برسراقتدار پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں ہونا چاہئے۔ جس نے ان پیرا میٹرز میں سے کسی ایک کی ہی خلاف ورزی کی اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نواز لیگ کی جگہ لینے کے خواہشمند اسٹیک ہولڈرز نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان دونوں پیرا میٹرز کا خیال رکھیں گے۔

No comments.

Leave a Reply