امریکی وزیر خارجہ کی برطرفی کا سبب ایران ہے؟

امریکی سابق وزیر خارجہ   ریکس ٹلرسن

امریکی سابق وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن

 نیوز ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا، روس اور ایران سے متعلق پالیسیوں کے حوالے سے اعلانیہ اختلافات کے بعد منگل کے روز وزیر خارجہ Rex Tillerson کو برطرف کر کے ان کی جگہ امریکی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی CIA کے سربراہ Mike Pompio کو منتخب کر لیا۔  بعد ازاں اپنے بیان میں ٹرمپ نے واضح کیا کہ Rex Tillersonکے ساتھ کا اختلاف ”ایرانی جوہری معاہدے” کے حوالے سے ہوا۔ منگل کے روز کیلیفورنیا میں سان ڈیاگو کے فضائی اڈے پر خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ مشرق وسطی میں جہاں بھی جائیں ہمیں ایران ہی مسائل کا سبب نظر آتا ہے۔  ہم ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ پالیسی اپنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اس سے قبل نومبر 2017ء میں امریکی صدر کے ساتھ شدید اختلاف کے بعد Rex Tillerson کی برطرفی کی خبر پھیل گئی تھی جس کی تردید 30 نومبر کو کر دی گئی۔ سال 2015ء میں ایران اور 6 ممالک کے درمیان جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد سے امریکی انتظامیہ پر لازم ہو گیا ہے  کہ وہ ہر 90 روز بعد جوہری معاہدے پر ایران کے کاربند رہنے سے متعلق رپورٹ کانگریس میں پیش کرے۔ ٹرمپ اور ان کے اکثر ساتھیوں کے نزدیک سابق صدر اوباما نے ایرانی جوہری معاہدہ طے کرتے ہوئے مشرق وسطی میں اپنے حلیفوں کے حوالے سے امریکی پاسداری کا خیال نہیں کیا  اور یہ معاہدہ امریکا اور اس کے حلیفوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ Rex Tillerson کی برطرفی کے بعد ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکا اپنے حلیفوں کے ساتھ تعاون کرے گا  تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے اور دہشت گردی کے لیے تہران کی سپورٹ کو روکا جا سکے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ میں نے جو بدترین سمجھوتہ دیکھا ہے وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ہے۔ ہم نے ان کو 150 ارب ڈالر کیوں ادا کیے؟ امریکی صدر کا اشارہ اس رقم کی جانب تھا جو جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد اوباما انتظامیہ نے تہران کو ادا کی۔

امریکی نیوز نیٹ ورک CNN نے دو صحافیوں کو دیے گئے انٹرویو کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹرمپ کے مطابق Rex Tillerson کے نزدیک جوہری معاہدہ برا نہیں ہے جبکہ ٹرمپ اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات معروف ہے کہ ایران، شام میں بشار الاسد کی حکومت اور لبنان میں حزب اللہ کے علاوہ  عراق اور یمن میں اپنی ہمنوا ملیشیائوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔  علاقائی ممالک تہران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بعض گروپوں اور تنظیموں کو سپورٹ کر کے ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ بھی تہران کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے کہ اس کی جانب سے دہشت گردی کی سپورٹ، اپنی ہمنوا ملیشیائوں کی تشکیل اور انہیں جدید اسلحہ فراہم کرنا نہ صرف علاقائی امن بلکہ عالمی امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ اور Rex Tillerson کے درمیان اختلافات ایران کے معاملے کی حد تک محدود نہیں بلکہ ان اختلافات میں شمالی کوریا، روس، قطر اور یمن سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔

No comments.

Leave a Reply