افغانستان کی تقسیم کے امریکی منصوبے پر افغان طالبان برہم

افغانستان کی تقسیم کے امریکی منصوبے پر افغان طالبان برہم

افغانستان کی تقسیم کے امریکی منصوبے پر افغان طالبان برہم

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

عراق اور شام کی طرح افغانستان کو بھی تین حصوں میں تقسیم کرنے کے امریکی منصوبے کی خبریں سامنے آنے کے بعد افغان طالبان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کو تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جو عناصر افغانستان کی تقیسم کی حمایت میں آوازیں اٹھا رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی اور انہیں افغانستان سے باہر نکال دیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ٹرمپ کے افغانستان میں موجود 800 سے زائد جنگی مشیر جو عراق اور شام میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے وائی پی جی اور پروٹیکشن یونٹ آف کردستان جیسی مسلح تنظیمیں بنائیں اور ان کے لئے مختلف علاقے مختص کر کے ان کو وہاں بٹھا دیا تھا، جس کی وجہ سے شام اور عراق کے اندر ایسے علاقے وجود میں آ رہے ہیں جن پر ان مسلح لوگوں کا راج ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ امریکی دستے بھی تعینات ہیں۔

امریکہ نے افغانستان میں اپنی حکمت عملی کی ناکامی کی صورت میں اس طرح کے یونٹس تشکیل دینے پر کام شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے 35 ہزار افراد پر مشتمل مسلح ملیشیا کے قیام پر کام تیزی سے جاری ہے، جس میں 8600 افغان فوج کے اہلکار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان میں اکثریت کا تعلق شمالی افغانستان کی تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری سے ہے۔ مستبقل میں اس مسلح ملیشیا کو ان تین قومون کے کمانڈروں میں تقسیم کرنے کا پلان ہے۔  اس حوالے  سے بعض افغان رہنمائوں نے افغان طالبان کو قندھار، ارزگان، زابل، نورستان، کنٹر اور بعض پسماندہ صوبے دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کا مقصد ایسا بفر زوں قائم کرنا ہے کہ افغان طالبان کو ملک کے دیگر علاقوں میں گھسنے نہ دیا جائے۔ جبکہ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغان طالبان کے لیے ایک سیف زون کے قیام کی تجویز دی تھی کہ جہاں پر افغان طالبان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کئے جا سکیں۔

دوسری جانب بعض عنار اس تجویز کی آڑ میں افغانستان کو تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ہیں، جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں شمالی اتحاد کے رہنما Atta Muhammad Noor سرفہرست  ہیں۔ جبکہ ہزارہ برادری کے استاد اور ازبک برادری کے جنرل دوستم  بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں حزب اسلامی کا کہنا ہے کہ حکمت یار فکی تجویز صرف افغان طالباھن کی قیادت کے لیے افغانستان میں ایسی جگہ فراہم کرنا تھی، جہاں پر ان کے اہم رہنما اپنے خاندانوں کے ساتھ امن سے رہ سکیں اور ان کے ساتھ مذاکرات کئے جا سکیں۔ کیونکہ ایک جانب امریکہ مذاکرات کی دعوت دیتا ہے تو دوسری طرف طالبان قیادت کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لہذا جس طرح شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ایک غیر فوجی جگہ ہے، اسی طرح یک جگہ افغان طالبان کو فراہم کی جائے۔ افغان طالبان اور امریکہ سمیت کابل حکومت اس سیف زون میں لڑائی سے اجتناب کریں۔ تاہم حکمت یار کی اس تجویز کی بعض قوم پرست اور شمالی اتحاد کے لوگ غلط تعبیر پیش کر رہے ہیں۔ ادھر ہرات کے سابق گورنر اور جہادی رہنما اسماعیل خان نے افغان طالبان کو پیشکش کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر نفاذ شریعت کے لیے جدوجہد پر تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ مجاہدین کے ساتھ اپنی تجاویز شیئر کریں۔واضح رہے کہ 17 سال میں پہلی بار جنرل اسماعیل خان نے افغان طالبان کو اس طرح کی پیشکش کی ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان نے افغانستان کی تقسیم کے لیے امریکی منصوبے کے حوالے ایک مفصل اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض عناصر کی جانب سے افغانستان کو تقسیم کرنے کی سازشی نعرے سنائی دیتے ہیں۔ یہ سازشی نعرے امریکی فوجوں کی جارحیت کو سپورٹ اور چند فروخت شدہ افراد کو برسراقتدار لانے کے لیے ہیں۔ اس مجرمانہ کوشش کا آغاز اس وقت سے شروع ہوا، جب روسی جارحیت کے خلاف افغان جہاد کامیاب ہوا اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے راہ ہموار ہوئی۔ اس وقت بھی بیرونی ممالک کی خفیہ سازشوں کے نتیجے میں گروہی لڑائیوں نے افغانستان کو ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار کیا تھا۔ آج ایک بار پھر غاصبوں نے اپنی جارحیت کے زیر سایہ افغانستان کو طوائف الملوکیت کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ اقتدار کی تقسیم، مناصب پر قبضے اور دیگر امتیازات کے حصول کی خاطر عوام کو بھڑکایا جا رہا ہے اور کہ مضحکہ خیز ڈھنڈورا بھی پیٹا جانے لگا ہے کہ چند صوبے افغان طالبان کے حوالے  کر دیئے جائیں۔ افغان طالبان اس نوعیت کی سازش کی مذمت کرتے ہیں۔ ایسے منصوبے افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں۔ مختلف زبان بولنے والے تمام اقوام کے افغان باشندے ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور جو عناصر بھی ان کے درمیان علیحدگی چاہتے ہیں، وہ سازشی ہیں۔ افغان طالبان کو یقین ہے کہ استعمار اور اس کے حامی عناصر کی ناکامی کے لمحات آن پہنچے ہیں۔ یہ عناصر اور ان کے تخریبی منصوبے جلد ختم ہو جائیں گے اور ملک تمام خطرات اور مضرات سے تحفظ پائے گا۔

No comments.

Leave a Reply