افغان طالبان کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاری

امریکی فوج کے سربراہ  جنرل جوزف ڈین فورڈ

امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈین فورڈ

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی حکام نے افغان طالبان کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاری کر لی ہے۔ امریکی فوج کے سربراہ کا دورہ خفیہ دورہ کابل اسی سلسلے کی کڑی بتائی جاتی ہے۔ افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامہ میں کہا گیا ہے کہ General Joseph Dunford 19 مارچ کو افغانستان کے دور روزہ دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے 20 مارچ کو افغان صدر اور افغان فوج کے افسران سے ملاقات کی۔ تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوج کے سربراہ General Joseph Dunford نے دورے کے دوران افغان فوج اور امریکی فوج کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور ان سے اپریل میں  طالبان کے خلاف شروع کئے جانے والے آپریشن کے حوالے سے آگاہی حاصل کی۔

افغانستان میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اپریل میں موسم بہار کے خاتمے پر افغان طالبان کے بڑے حملے روکنے اور ان کے خلاف بڑا آپریشن  کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ اس حوالے سے General Joseph Dunford نے ان 800 امریکی فوجی مشیروں سے بھی ملاقات کی ہے، جو دو ہفتے قبل افغانستان پہنچے تھے۔ ذرائع کے مطابق یہ فوجی مشیر عراق اور شام میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ اور اب انہیں افغان فوج کے دستوں کی رہنمائی کے لئے تعینات کیا گیا ہے۔  ان مشیروں نے افغان فضایہ کو ازسرنو ترتیب دینے کی درخواست کی ہے۔ مشیروں کی جانب سے جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس کے مطابق افغان فوج کے زمینی دستے افغان طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، لہذا امریکہ نے گزشتہ 17 سال میں افغان فضائیہ کی تربیت نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوج کے سربراہ نے امریکی اور افغان فوجی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغان فضائیہ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے جلد اقدامات اٹھائیں۔

دوسری جانب افغان طالبان نے بھی اپنے جنگجوئوں کو پورے ملک میں متحرک ہونے کی ہدایت کر دی ہے۔ افغان طالبان کے مطابق وہ امریکہ کے خلاف ہر قسم کی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 17 سال سے امریکی منصوبہ بندی ناکام رہی اور آئندہ بھی یہ ناکام رہے گی۔ کیونکہ ہمارا مقصد صرف اور صرف افغانستان کی آزادی ہے۔ افغانستان سے باہر ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ادھر یورپی یونین اور چین نے افغان طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ صدر اشرف غنی کی جانب کی جانے والی پیشکش پر غور کر کے مذاکرات شروع کر دیں اور مزید خون ریزی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ چین اور یورپی یونین نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات شروع کریں، باقی معاملات آہستہ آہستہ طے ہو جائیں گے۔ امریکی انخلا سمیت دیگر معاملات پر ان کے نکتہ نطر پر توجہ دی جائے گی۔

چین اور یورپی یونین کی جانب سے یہ اپیل ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان نے بھی افغان طالبان سے صدر اشرف غنی کی پیشکش ماننے کی اپیل کی ہے۔ طالبان ذرائع نے بتایا کہ افغان حکومت کی پیکش سنجیدہ نہیں ہے، کیونکہ اس میں امریکی فوج کے انخلا کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے ساتھی مذاکرات کے نام پر صرف وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف شمالی افغانستان میں امریکی اور افغان فوج کی جانب سے بمباری جاری ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہاں جنگ کے دوران مذاکرت ہوتے ہیں؟ یہ سب وقت حاصل کرنے کے بہانے ہیں کہ طالبان کو مذاکرات میں الجھا کر ان کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاریاں کی جا سکیں۔

No comments.

Leave a Reply