امریکا تبدیلی کے عمل میں سعودی عرب کی کیسے مدد کر سکتا ہے

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فائل فوٹو

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فائل فوٹو

نیوز ٹائم

انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ممالک نے پرامن انداز میں اور رضاکارانہ طور پر قومی معیشت کو درست خطوط پر استوار کرنے کے لیے اصلاحات کا عمل شروع کیا ہو اور مذہبی حساسں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر سماج کی اقدار میں تبدیلی اور توسیع کی ہو۔ سعودی عرب یہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سعودی مملکت کئی عشروں سے سماجی اور ثقافتی اقدار کے ساتھ چل رہا تھا اور انھیں کوئی چیلنج بھی نہیں کیا جاتا تھا مگر اس سے ترقی کی رفتار سست ہو جاتی رہی ہے۔ اب قیادت نے ایک نیا لائحہ عمل وضع کیا ہے۔ اس کا مقصد ہماری معیشت اور معاشرے میں تبدیلی اور اصلاح کے عمل کو بروئے کار لانا ہے۔ اس کا مقصد ہماری ان پوشیدہ صلاحیتوں اور وسائل سے فائدہ اٹھانا بھی ہے جن سے اب تک استفادہ کیا گیا ہے۔

دو  قبل Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman نے King Salman bin Abdulaziz کی رہنمائی میں کام کرتے ہوئے ویژن 2030ء کا آغاز کیا تھا۔ یہ معیشت کو متنوع بنانے کے ساتھ سماجی اور ثقافتی اصلاحات کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ نوجوان اور متحرک Crown Prince اور اصلاحات کے خالق آبادی کے سب سے بڑے گروپ یعنی نوجوانوں کی اہمیت سے کم آگاہ ہیں۔ ہمارا سابقہ لائحہ عمل کوئی پائیدار نہیں تھا لیکن اب زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوئوں میں تبدیلی کا ایک عمل جاری ہے۔ ہم خواتین کے حقوق کو وسعت دے رہے ہیں۔ مسلم عازمین ِحج اور عمرہ کے لیے خدمات کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور مختلف صنعتوں میں بڑے بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب ملک کو سیاحت کے لیے کھول رہے ہیں۔ ملک میں تفریحی صنعت کو بالکل نئے سرے سے قائم کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی ثقافت اور تاریخی ورثے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہم اپنے صحت عامہ اور تعلیم کے نظاموں کی بھی تنظیم نو کر رہے ہیں۔ یہ ان چند ایک اصلاحات میں سے ہیں جن کا پہلے ہی آغاز کیا جا چکا ہے۔

امریکا کے پاس Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman کے اس پہلے سرکاری دورے کے موقع پر ایک اچھا موقع ہے  کہ وہ ان اصلاحات کے بارے میں جان کاری حاصل کرے۔ ولی عہد منگل سے اپنے اس دورے کا آغاز کر چکے ہیں۔ ان کی آمد کا بنیادی مقصد امریکا اور سعودی عرب کے درمیان جاری شراکتداری کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2017ء میں Al- Riyadh میں منعقدہ سربراہ اجلاس کے بعد تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوا تھا۔

متنوع حکمت عملی:

Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman صرف سیاست کے موضوع پر بات کرنے کے لیے امریکا نہیں آئے ہیں۔ وہ کاروبار اور بالخصوص دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ ان کے معیشت کو متنوع بنانے کے منصوبے کے تحت سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ولی عہد کے مختلف شہروں کے دورے سے اسی سال کے آخر میں King Salman bin Abdulaziz کے امریکا کے دورے کی راہ ہموار ہو گی۔Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman سعودی عرب کے سرکردہ سیاست دان ہیں۔  وہ واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں  اور ان کی انتظامیہ کے اعلی عہدے داروں اور دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے سرکردہ ارکان سے ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔ ان کی بات چیت سے دونوں ممالک کے درمیان طویل شراکتداری اور تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔

سعودی عرب اور امریکا کے درمیان عشروں پرانے تاریخی تعلقات استوار ہیں۔ ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز دونوں جماعتوں کی حکومتوں نے انھیں پروان چڑھایا اور ان کا تحفظ کیا۔ دونوں ممالک میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تعلقات استوار ہوئے تھے۔ یہ سرد جنگ کے زمانے میں برقرار رہے تھے اور کویت کی آزادی کے لیے آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے دوران میں ان کو مزید تقویت ملی تھی۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، خفیہ معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف عالمی مرکز برائے انسداد انتہا پسندی نظریہ (Global Center for Casting Extremeist Ideology, Moderate) ایسے مشترکہ منصوبوں پر بھی مشترکہ طور پر عمل پیرا ہیں۔  جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو گذشتہ عشروں کے دوران میں ہزاروں سعودی طلبہ نے امریکا میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔ سعودی عرب کی کاروباری شخصیات نے امریکا میں مختلف صنعتوں، ٹیکنالوجی، Real Estate and Infrastructure کے شعبوں میں سیکڑوں ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ہم نے ہر صدر کی انتظامیہ کے ساتھ قریبی تعلقات کار اور شراکتداری برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف جنگ:

ٹرمپ انتظامیہ نے برسر اقتدار آنے کے بعد بہت نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بالخصوص انتہا پسندی کے خلاف جنگ اور ایران کے مذموم عزائم اور اثر و رسوخ کو روک لگانے کے لیے جو بھی فیصلے کیے ہیں، ان کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سعودی قیادت اور ٹرمپ انتظامیہ نے دوطرفہ تعلقات کے استحکام اور مضبوطی کے لیے فریم ورک بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اس سے اداروں کے درمیان تعاون کو بھی فروغ ملا ہے۔ اب ہم سعودی عرب اور امریکا کے درمیان طویل المیعاد اتحاد کو از سرنو استوار کرنے کے نئے مواقع کا جائزہ لے رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد اپنے دورے کے موقع پر اس حوالے سے روشنی ڈالیں گے۔ بالخصوص کاروبار اور سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں بات چیت کریں گے  اور الریاض سربراہ اجلاس میں King سلمان اور صدر ٹرمپ کے شروع کردہ اقدامات کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

سعودی عرب اور امریکا کے درمیان آج تعلق پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط، گہری اور کثیرالجہت ہو چکی ہے۔یہ اوول آفس، کانگریس کے ہالوں،  فوجی اڈوں اور تجارتی راہ داریوں تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ ان سے کہیں زیادہ وسعت اختیار کر چکی ہے۔ سعودی عرب اصلاحات کے عمل سے گزر رہا ہے اور ہمارے عزائم سعودی، امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔ طرفین کو اس لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اپنے پختہ اتحاد کو چٹان کی طرح مزید مضبوط بنانے کے لیے عزم کا اعادہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں مستقبل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ خوش حالی لانے کے لیے تمام سعودیوں کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے اور مشرق ِ وسطی کے اہم مگر شورش زدہ خطے اور دنیا میں استحکام لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

No comments.

Leave a Reply