بھارت کی عالمی طاقت بننے کی کوشش

امریکا کے بعد  بھارت کا عالمی طاقت بننے کی پالیسی

امریکا کے بعد بھارت کا عالمی طاقت بننے کی پالیسی

نیوز ٹائم

اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) جو اسلحے کی دوڑ اور اسلحہ کے پھیلائو پر نظر رکھتی ہے کا دعوی ہے کہ اسلحہ خریدنے میں بھارت دنیا کے تمام ممالک سے بازی لے گیا ہے،  وہ دنیا بھر سے اسلحہ خرید کر اپنے آپ کو ایک عالمی قوت کے درجے پر فائز دیکھنا چاہتا ہے،  اس کا دفاعی بجٹ ماضی کے مقابلے میں 15 گنا بڑھ گیا ہے،  امریکہ سے بھارت کو اسلحے کی سپلائی میں ماضی کے مقابلے میں 6 گنا اضافہ ہوا ہے  جبکہ روس اس کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک آج بھی ہے۔  بھارت نے پچھلے برسوں 15,935 کروڑ روپے مالیت کا اسلحہ امریکہ، روس، اسرائیل، فرانس اور دیگر ممالک سے خریدا ہے،  جس کی وجہ سے خطے میں طاقت کا عدم توازن پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے کیونکہ جو روایتی ہتھیار وہ حاصل کر رہا ہے وہ کسی اور ملک کے خلاف نہیں  بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال ہونے ہیں،  ان میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جن کا امریکہ نے حال ہی میں بھارت کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے  اور اس لئے بھی کہ بھارت کی 70 فیصد فوج پاکستان سرحدوں پر تعینات ہے،  چین سے اس کا ڈوکلام پر تنازعہ تھا وہ اس نے پچھلے سال حل کر لیا،  جس کے بعد چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 84.44 بلین ڈالر ہو گیا۔

انڈیا نے اگنی IV اور اگنی V کا تجربہ کر کے دنیا کو چین کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا مگر بھارت، چین سے کبھی جنگ نہیں کرے گا وہ یہاں امریکہ کو بھی چکمہ دے جائے گا۔  رہا ایٹمی پروگرام کا معاملہ تو اس کا ایٹمی انرجی کمیشن 1948ء میں ہی قائم ہو گیا تھا،  یہاں تک کہ اس نے ایٹم بم بنا لیا اور 1974ء  میں پوکھران میں ایٹمی تجربہ بھی کر ڈالا،  پھر مئی 1998ء میں 5 ایٹمی دھماکے کئے اور اب بنگلور کے قریب ایک ایٹمی شہر بنا رہا ہے،  اس کے 22 ایٹمی ری ایکٹرز ہیں جن میں 14 عالمی ادارہ برائے توانائی ایجنسی (IAEA) کے معائنے کے لئے دستیاب ہیں  اور 8 ایٹمی ری ایکٹرز اس عالمی ادارہ کے دائرہ کار میں نہیں آتے اور یہ عالمی ادارہ اپنی مرضی سے ان کا معائنہ نہیں کر سکتا ہے۔  بھارت چاہے تو سول ادارے سے ایندھن حاصل کر سکتا ہے اور معائنے کی زد میں آنے والے 8 ایٹمی ری ایکٹروں کو فراہم کر سکتا ہے جبکہ پاکستان کے تمام بجلی گھر ری ایکٹرز عالمی ادارے کے معائنہ کیلئے دستیاب ہیں،  کینپ، چشمہ  تا چشمہ4 جو پاکستان کو 1350 میگا واٹ بجلی فراہم کرتے ہیں  جبکہ 2030 ء تک 8 ہزار میگا واٹ بجلی ایٹمی ذریعے سے دستیاب ہو گی۔  جہاں تک بھارت کا یورینیم ایندھن کا معاملہ ہے، یورینیم بھارت کو بذریعہ کان کنی حاصل ہوتا ہے مغربی ممالک اور کئی اور ممالک سے حاصل کرنے میں آزاد ہے،  2008 کے امریکہ سول ایٹمی معاہدے سے اسے اس سلسلے میں استثنی مل چکا ہے جو جنرل پرویز مشرف کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس وقت ہم نے اس استثنی کی مزاحمت نہیں کی۔

امریکہ کے دانشور Michael Krepon نے لکھا ہے کہ جس طرح پاکستان، بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت پر مزاحمت کر رہا ہے، اگر وہ اس استثنی پر کرتا تو بھارت کو یہ مراعت حاصل نہ ہوتی، اب جب بھارت ایک سال میں 6 سے 10 ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے  تو وہ چند برسوں میں 200 سے 300 ایٹم بم بنا لے گا۔ سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ وہ ایسا اس لئے کر رہا ہے کہ دنیا میں اس کو وقار حاصل ہو جائے اور وہ ایک عالمی طاقت بن جائے جس سے اس کو دنیا میں بڑا کردار مل جائے۔ اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا، ہر ملک اس کی بات میں وزن محسوس کرے گا کہ وہ معاشی طور سے بھی مضبوط ہے اور ملٹری طور پر بھی اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ سب پر اس کی طاقت کا سکہ جم جائے گا۔ تیسرے سارک ممالک یا خطے کے ممالک میں پاکستان ہی ہے جس نے ابھی تک اس کی بالادستی قبول نہیں کی۔بھارت کا اپنے محدود وسائل کے باوجود ہر میدان میں مقابلہ کر رہا ہے، اس نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان نے بھی بنا لیا، اس نے دوسرے حملے کی صلاحیت حاصل کی تو پاکستان نے بھی حاصل کر لی۔ اس کی بحریہ مضبوط ہو رہی ہے تو پاکستان بھی اپنی بحریہ پر توجہ دے رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ چاہتا ہے کہ روایتی ہتھیاروں اور ایٹمی اثاثوں میں اتنی برتری حاصل کرے کہ پاکستان تنہا ہو جائے ،  پاکستان کی بات میں وزن نہ رہے، جنوبی ایشیا کے ممالک اس کے حکم پر چلیں اور مسئلہ کشمیر دب جائے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اس کو قبول کرے گا، میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک ملٹری تصادم کا فلیش پوائنٹ ہے جبکہ بھارت محدود روایتی جنگ کی تیاری نئے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے حوالے سے کر رہا ہے  اور اسی مقصد کے حوالے سے اسلحہ خرید رہا ہے جبکہ پاکستان نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو اس وقت دریا برد کر دیا تھا  جب اس نے نصر ٹیکٹیکل ایٹمی اسلحہ بنایا تھا جو محدود پیمانے پر تباہی پھیلاتا ہے اور ایٹمی جنگ کی تعریف میں نہیں آتا  مگر جواباً بھارت کا یہ کہنا تھا کہ اگر پاکستان نے یہ محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کئے تو پاکستان سے مکمل ایٹمی جنگ چھیڑ دے گا۔  ایسی صورت میں جنوبی ایشیا میں کچھ نہیں بچے گا تو اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بھارت اس کا متحمل ہو سکتا ہے  تو جواب تو نفی میں ہے مگر پاگل پن کا کوئی علاج نہیں۔

پاکستان کے صدر Mamnoon Hassain نے 23 مارچ 2018ء  کی فوجی پریڈ سے خطاب میں بھارت کے اس Posture کو خطرناک قرار دیا ہے۔ جہاں تک بحریہ کے حوالے سے معاملات ہیں یا دفاعی نظام کے حوالے سے مسائل ہیں یا سائبر جنگ، جراثومی جنگ کے مسئلے ہیں ان پر پاکستان قابو پا چکا ہے۔ پاکستان، بھارت کی اندرونی معاملات میں مداخلت کو بھی بڑی جانفشانی اور قربانیوں کے بعد قابو میں لا چکا ہے۔ سندھ میں اکادکا واقعات خاصی مدت کے بعد ہوئے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی اب جوابی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں اور پاکستان کی حکمت عملی کی وجہ سے افغان حکومت سے پاکستان کے تعلقات قدرے بہتر ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اس لئے بہتری آئی ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جیسا کہ بعض حلقوں کا کہناہے کہ ایرانیوں سے انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر سعودی عرب ہمارا دل ہے تو ایران ہمارا جگر ہے،  اس لئے وہاں بھی حالات بہتری کی طرف مائل ہیں، متحدہ عرب امارات سے تعلقات کے بہتر ہونے کا ثبوت یوم استحکام پاکستان 23 مارچ 2018ء کو اس کے فوجی دستے کی موجودگی سے مل جاتا ہے۔ اس لئے بھارت جو کچھ کر رہا ہے بقول ایڈمرل سید عارف اللہ حسینی کے اپنا پیسہ اور وقت ضائع کر رہا ہے،  اصول یہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگتا ہے تو سمجھو اس کی تباہی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ مستعدی، ٹیکنالوجی اور قوتِ ایمانی کے ساتھ بھارت کو جنگ سے باز رکھا جا سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply