روس اور بھارت کی جدا ہوتی راہیں

امریکا کی جانب بھارت کے بڑھتے جھکائو کی وجہ ہی سے روس، بھارتی حکومت سے بھی خاصاً متنفر ہو چکا

امریکا کی جانب بھارت کے بڑھتے جھکائو کی وجہ ہی سے روس، بھارتی حکومت سے بھی خاصاً متنفر ہو چکا

نیوز ٹائم

پچھلے دنوں روس اور برطانیہ نے ایک دوسرے کے 23، 23 سفارتکار نکال باہر کیے اور یوں دونوں عالمی قوتوں کے باہمی تعلقات میں نئی دراڑ آ گئی۔ چند برس سے روس اور مغرب کے تعلقات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سے حالیہ تعلقات میں نئی دراڑ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امریکا کی جانب بھارت کے بڑھتے جھکائو کی وجہ ہی سے روس، بھارتی حکومت سے بھی خاصاً متنفر ہو چکا۔ اس ناراضگی کا مظاہرہ کچھ عرصہ قبل دیکھنے کو ملا جب روس نے حیران کن طور پہ بلوچ رہنمائوں کو بھارت پر لعنت ملامت کرنے کی اجازت دے دی۔ دنیا میں تیل، گیس اور معدنیات کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا روس عسکری لحاظ سے بھی ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ چنانچہ کئی ممالک اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان اور روس کے تعلقات خراب رہے۔ اس کی وجہ روس اور بھارت کی قربت ہے۔ تاہم چند برس سے عالمی سطح پر ایسی تبدیلیاں جنم لے چکیں جنہوں نے روس اور بھارت میں دوریاں بڑھا دیں۔  مغربی ممالک نے بسلسلہ مسئلہ کریمیا، روس پر پابندیاں لگائیں تو وہ چین کی سمت جھک گیا۔ اب روس اور چین کے مابین باہمی تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس دوران پاکستان اور امریکا کے مابین دوریاں بڑھتی گئیں۔ حتی کہ اب قوم پرست امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو معاشی نقصان پہنچانے کے مختلف طریقے آزما رہا ہے۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ امریکی حکومت نے وطن عزیز کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل کروا دیا۔ اس سے قبل امریکا، پاکستان کی عسکری امداد بھی روک چکا ہے۔

امریکا سے بڑھتے فاصلوں کے باعث اب پاکستان قریبی عالمی طاقتوں، چین اور روس سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ ادھر چین اور روس کی بڑھتی قربت بھارتی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ بن رہی ہے۔ گو بھارت اور چین کے مابین اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے مگر عسکری و سیاسی معاملات میں اکثر دونوں پڑوسی آپس میں الجھے رہتے ہیں۔  اب تو بھارت امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بالمقابل ایک پروجیکٹ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارتی حکومت کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس شش و پنج میں ہیں، مستقبل میں اگر چین اور بھارت کے مابین کوئی بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا تو روس کس کا ساتھ دے گا؟ چین اور روس کی بڑھتی قربت تو یہی ظاہر کرتی ہے کہ روسی حکومت  چین کی طرف داری کرے گی۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مسئلے پر چین کے آگے بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔ اسی سوچ کے باعث بھارتی حکمران بتدریج امریکا اور یورپ سے دوستی کے تلعقات بڑھانے لگے ہیں۔ ظاہر ہے، روسی حکومت کو بھارت کا یہ جھکائو پسند نہیں آیا۔  وجہ یہ کہ روس اور امریکا کے درمیان تنائو رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں روسی صدر پیوٹن نے امریکی ریاست کیلیفورنیا پر ایٹمی میزائل حملہ کرنے کی دھمکی دی جو نہایت اہم بات ہے۔  اسی طرح روس جدید ترین اسلحہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کر چکا اور امریکی بھی اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ گویا دونوں ممالک کے مابین نت نیا اسلحہ بنانے کی دوڑ پھر جنم لے چکی۔ یہ کرہ ارض کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔

اس صورتحال میں روس کو بھارتی وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کی دوستانہ پالیسی پسند نہیں آئیں لہذا وہ پاکستان سے قربت بڑھا کر بھی بھارت کے سامنے اظہار ناراضگی کرتا ہے۔ روس زمانہ قریب میں نہ صرف پاکستان کو ہیلی کاپٹر فراہم کر چکا بلکہ اس نے جے ایف 17 طیاروں کی خاطر انجن بھی فروخت کیے۔ معاشی طور پر بھی روس، پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ امکان ہے کہ کراچی تا لاہور کی ایل این جی گیس پائپ لائن روسی کمپنیاں ہی تعمیر کریں گی۔ پچھلے ماہ روس نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے سیاسی سطح پر بھی پاکستان کی حمایت کر دی۔ یہ نہایت اہم تبدیلی ہے۔ جیسا کہ نئی دہلی میں واقع مشہور بھارت تھنک ٹینک، آبزور ریسرچ فائونڈیشن سے منسلک محقق، Prof. Sushanth Serin کا کہنا ہے اگر روسی حکومت عالمی و مقامی سطح پر پاکستان کی سیاسی حمایت کرنے لگی، تو اس سے بھارت کے لیے کافی مشکلات جنم لیں گی۔ پاکستان کے لیے روسی حکومت کی زبردست سیاسی حمایت یہ ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر ایک ممتاز بلوچ قوم پرست لیڈر کو بھارت پر کھلے عام لعنت ملامت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہی نہیں بلوچی رہنما نے یہ اعلان  کر دیا کہ بلوچستان میں بھارت دہشت گردی کروا رہا ہے۔سرزمین روس پر کسی بلوچ قوم پرست لیڈر کا یہ اعلان کرنا نہایت اہم تبدیلی ہے۔ یاد رہے، ماضی میں روسی حکمران بھارتی حکومت کی مدد کرتے رہے ہیں تاکہ وہ پاکستانی صوبوں سرحد اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دے سکے۔ مگر اب صورت حال بدل چکی اور روسی حکومت بھارتیوں کے دیئے گئے گندے انڈے سامنے لا رہی ہے۔ یاد رہے، حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ نے روس کا دورہ بھی کیا ہے۔

بلوچستان کا اہم خاندان:

17 فروری کو اہل قوم نے یہ خبر سنی کہ درج بالا Baloch Nationalist Leader Dr Jumma Khan Marri نے ریاست پاکستان کے خلاف جدوجہد ختم کرتے ہوئے اس سے وفادار رہنے کا اعلان کر دیا۔ یوں بلوچستان میں سرگرم مسلح اور غیر مسلح جدوجہد کرنے والے علیحدگی پسندوں کو زبردست ضرب پہنچی اور ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اب یہ نظر آنے لگا ہے کہ مستقبل میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک رفتہ رفتہ دم توڑ جائے اور بلوچستان امن و محبت کا گہوارہ بننے لگے گا۔ اس خوش کن امید کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے نئے اتحاد بن رہے ہیں اور خصوصاً بڑی طاقتوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ Dr Jumma Khan Marri معمولی شخصیت نہیں، ان کے خاندان کا شمار بلوچستان اور وہاں کی مقامی تاریخ کے اہم خاندانوں میں ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان سے وفادار رہنے کے اعلان کو بڑی اہمیت دی گئی۔  اس اعلان کے بعد پاک فوج کے سربراہ نے بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں نئے ترقیاتی اور عوام دوست منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔  ان منصوبوں میں ضلع کے قصبے میں کیڈٹ کالج کا قیام بھی شامل ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی ان منصوبوں کے ذریعے بلوچوں میں ملک و قوم سے محبت و قربت کے جذبات جنم لیں گے۔  Dr Jumma Khan Marri  قبیلہ بلوچستان کے بڑے بلوچ قبائل میں سے ایک ہے۔  اس کی تین بڑی شاخیں ہیں:  Bajrani ، Gazainis اور Loharanis ۔

جب غلط فہمیوں کے باعث بلوچ سرداروں اور پاکستانی حکومت کے مابین چپقلش شروع ہوئی تو Gula Khan بھی اس کا حصہ بن گئے۔ 1970 میں جب وہ بوڑھے ہوئے، تو قبیلے کی سرداری ان کے بیٹے، Mir Hazar Khan کو سونپ دی گئی۔ 1973 میں بھٹو حکومت نے بلوچ سرداروں پر علیحدگی پسند تحریک چلانے کا الزام لگایا  اور انہیں قابو کرنے کی خاطر صوبے میں فوج بھجوا دی۔  یوں بلوچستان خانہ جنگی کا نشانہ بن گیا۔  تب Nawab Khair  Bakhsh Marri قبائل کے سربراہ تھے۔  ان کی وجہ سے مری قبائل کے دیگر سردار بھی خانہ جنگی میں حصہ لینے لگے۔ یہ خانہ جنگی 5 برس جاری رہی۔ اس میں Mir Hazar Khan نے بھی حصہ لیا۔ Nawab Khair  Bakhsh Marri کا دست راست سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 1978ء میں پسپائی کے بعد Mir Hazar Khan سمیت کئی بلوچ سردار افغانستان چلے گئے۔ Mir Hazar Khan کے اہلخانہ میں بیٹا Juma Khan بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر Juma Khan نے ابتدائی تعلیم Kabul کے ایک بھارتی اسکول میں پائی۔  وہ پھر اعلی تعلیم حاصل کرنے ماسکو چلے گئے۔  انہوں نے وہاں (immunology)  اور الرجی پر پی ایچ ڈی کیا۔ گویا ان کا شمار انتہائی تعلیم یافتہ بلوچ رہنمائوں میں ہوتا ہے۔

1995 میں Mir Hazar Khan افغانستان سے بلوچستان واپس چلے آئے۔ انہوں نے تبھی مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔  یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 1995ء  میں بے نظیر بھٹو حکومت نے انہیں ایک کروڑ ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی تاکہ وہ مسلح جدوجہد ختم کر دیں مگر Mir Hazar Khan نے یہ زر کثیر لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بدلے انہوں نے یہ شرط رکھی کہ Bajrani tribe کے 1300 افراد کو سرکاری ملازمتیں دے دی جائیں۔ یوں انہوں نے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنے لوگوں کا مستقبل سنوار دیا۔ لہذا وہ ایسے رازوں سے بھی واقف ہیں جن سے عام لوگ آشنا نہیں۔  پاکستان سے اظہار وفاداری کرنے کے بعد انہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیئے اور اہم ترین انکشاف یہ کیا کہ آج بھارت، بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کا سب سے بڑا سرپرست بن چکا ہے۔ ماضی میں یہ محض قیاس آرائی تھی کہ ریاست پاکستان سے نبرد آزما بلوچوں کو بھارت سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ مگر اہم سابق علیحدگی پسند رہنما کے انکشاف نے سبھی  مفروضوں کو درست ثابت کر دیا۔

انھوں نے یہ بھی افشا کیا کہ Brahamdagh Bugti ، Hyrbyar Marri ، Mehran Marri وغیرہ بھارتی خفیہ ایجنسی، ‘را’  کے باقاعدہ تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔ اس انکشاف سے ان ہم وطنوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں جو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کا ذمے دار بھارت کو قرار نہیں دیتے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت، بلوچ علحیدگی پسندوں ہی نہیں پاکستانی طالبان اور فرقہ ورانہ پاکستانی تنظیموں کو بھی کسی نہ کسی طرح اسلحہ و سرمایہ فراہم کر رہا ہے تاکہ بالخصوص بلوچستان مسلسل انتشار و بدامنی کا شکار رہے اور وہاں سی پیک کے منصوبے التوا کا نشانہ بن جائیں۔ بھارت نے امریکا اور امریکی حکمرانوں کی کٹھ پتلی افغان حکومت کی آشیرباد سے افغانستان میں اپنے خفیہ اڈے بنا رکھے ہیں جہاں تعنیات را کے افسر پاکستانی صوبوں میں سرگرم دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن چین اور اب روس کی حمایت سے پاکستان اس قابل ہو رہا ہے کہ ان بھارتی پیادوں کا قلع قمع کر سکے۔ یہ پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید سناتی خوش آئند تبدیلی ہے۔

No comments.

Leave a Reply