مسلم لیگ ‘ن’ کے اہم فیصلے اب بھی نواز شریف کر رہے ہیں

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے الیکشن 2018ء کی تیاریوں کے لیے پیر کے روز جاتی امراء میں ایک خصوصی اجلاس بلایا

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے الیکشن 2018ء کی تیاریوں کے لیے پیر کے روز جاتی امراء میں ایک خصوصی اجلاس بلایا

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ‘ن’ لیگ کے علامتی صدر ہیں۔ لیگی ذرائع کے بقول اصل فیصلے اب بھی نواز شریف ہی Maryam Nawaz کی مشاورت سے کر رہے ہیں۔ بعض اوقات نواز شریف کے فیصلوں سے شہباز شریف بروقت آگاہ نہیں ہوتے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے الیکشن 2018ء کی تیاریوں کے لیے پیر کے روز جاتی امراء میں ایک خصوصی اجلاس بلایا، جس میں پارٹی کے انتخابی منشور کی تیاری پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی وزری ریلوے خواجہ سعد رفیق، سینٹر پرویز رشید، سیٹر آصف کرمانہ، سینیٹر مقبول احمد اور دیگر نے شرکت کی۔  ذرائع کے مطابق اس غیر رسمی مشاورتی اجلاس مین ملک کی مجموعی صورتحال، نیب کیسز اور نگران سیٹ اپ سمیت پارٹی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر سعد رفیق سے کہا گیا کہ وہ ماروی میمن کو پارٹی قیادت کے خلاف ٹوئٹس کرنے سے روکیں، کیونکہ ماروی میمن کو پارٹی میں سعد رفیق کی سفارش پر شامل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی ہدایت پر شہباز شریف لندن گئے ہیں تاکہ  Ishaq Dar سے ملاقات کر کے انہیں شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے روکیں۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کے لیے پنجاب میں الیکشن لڑنا جپہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہو گا۔ کیونکہ اس بار وہ ووٹرز نواز لیگ کے خلاف ہیں، جو اپنے مذہبی رہنمائوں کے حکم پر ن لیگ کو ووٹ دیتے تھے۔ اب مذہبی طبقات خود نواز لیگ  کے حریف بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے پنجاب میں اپنے کارکنوں کو متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب میں تحریک انساف کو ہر ضمنی الیکشن میں معمولی فرق کے ساتھ شکست ہوئی ہے اور اب وہ عام انتخابات میں کامیابی کے لے پورا زور لگا رہی ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے ابھی تک پنجاب میں نواز لیگ کے صدر کے انتخابپر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ کیونکہ کوئی موزوں اور قابل اعتماد شخص نہیں مل رہا ہے۔ عملاً پارٹی حمزہ شہباز کے ہاتھوں میں ہے۔ ن لیگ پنجاب کی صدارت کے خواہشمندوں میں رانا ثناء اللہ، سعد رفیق، آصف کرمانی اور رانا مقبول شامل ہیں۔ لیکن پارٹی قیادت اس منصب پر جنوبی پنجاب سے کسی کو لانا چاہتی ہے، تاکہ عام انتخابات میں وہاں سے بھوپور کامیابی حاصل کی جا سکے۔ ذرائع کے بقول پارٹی قیادت کی سوچ ہے کہ نواز لیگ پنجاب کی صدارت ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ ہو جس کا اثرورسوخ لاہور یا پنجاب کے شہری حلقوں میں ہو۔ ذرائع کے مطابق سعد رفیق کی نظریں لاہور کے تمام  قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں پر ہے، ان کی خواہش ہے کہ وہاں ان کے تجویز کردہ امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جائیں۔ سعد رفیق چاہتے ہیں کہ انہیں لاہور میں وہی مقام حاصل ہو جائے جو کبھی راولپنڈی ڈویژن میں چوہدری نثار علی خان کا تھا۔

دوسری جانب رانا ثناء اللہ کی کوشش ہے کہ وہ پنجاب کی صدارت حاصل کر کے Abid Sher Ali  کو اپنے ماتحت کر لیں اور وہ ‘ن’ لیگ کے ٹکٹ کے لیے  رانا ثناء اللہ کے مرہون منت ہوں۔لیکن شہباز شریف کسی بھی صورت پنجاب پر سے اپنا کنٹرول نہیں کھونا چاہتے۔ تاہم وہ نواز لیگ پنجاب کے صدر کو نامزد نہیں کر سکتے، یہ کام نواز شریف کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ جو نام تجویز کریں گے وہ Maryam Nawaz کے اعتماد کا شخص کا ہو گا۔ پارٹی صدر بننے کے بعد شہباز شریف نے پارٹی کی تنظیم نو کرنے کا ارادہ کیا تھا اور نواز شریف نے صوبوں میں نئے تنظیمی ڈھانچے بنانے کی منظوری دے دی تھی۔ لیکن اس حوالے سے کوئی علمی قدم اٹھانے سے قبل ہی شہباز شریف لندن چلے گئے۔ بظاہر ان کے دورے کا مقصد اپنا میڈیکل چیک اپ کرانا اور اپنی بھابی بیگم Kalsoom Nawaz  کی عیادت کرنا تھا۔

تاہم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کی موجودگی میں شہباز شریف پارٹی کے قائد کے طور پر نہیں ابھر سکتے،  نہی ہی وہ اداروں کے ساتھ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے لہجے کو چند دن مفاہمانہ بنانے کی کوشش کی، لیکن منگل کا اسلام آباد میں ایک بار پھر انہوں نے کہا کہ انہیں نہ کسی سگنل کا انتظار ہے اور نہ ہی وہ سگنل لیتے ہیں۔ امپائر کی انگلی نہیں، انگوتھے کی طاقت پر یقین ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرداری دور میں میموگیٹ اسیکنڈل میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔ ذرائع کے بقول سابق وزیر اعظم کا یہ بیان ان کا یوٹرن ہے،  اب وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کا نگران وزیر اعظم لانا چاہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کسی قوم پرست رہنما کو ہی نگران وزیر اعطم بنوانا چاہتے ہیں۔ نواز لیگ چاہتی کے متنازعہ حلقہ بندیوں پر ہی انتخابات ہو جائیں اور التو میں نہ جائیں۔ کیونکہ 6,7 ماہ کے وقفے میں ان کی مرضی کے افسران ان حلقوں میں نہیں رہیں گے جہاں سے وہ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  واضح رہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کی میعاد 31 مئی کو ختم ہو گی اور نگران حکومت 60 دن کے اندر الیکشن کرانے کی پابند ہے۔ اب الیکشن کمیشن کا امتحان ہے کہ وہ بروقت حلقہ بندیوں کا کام مکمل کر لے۔ لیکن حلقہ بندیوں پر اعتراضات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس عمل نے طوالت پکری تو انتخابات آئندہ سال جنوری، فروری تک ملتوی ہو سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply