وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کا نگران وزیر اعظم کے ناموں پر غور

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی  اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

اکتیس مئی کو مسلم لیگ ن کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران وزیر اعظم بنانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورتی عمل کا باضابطہ آغاز، بدھ کے روز اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی۔ وزیراعظم آفس میں ہونے والی ملاقات میں نگران وزیر اعظم اور دیگر اہم قومی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر اگلے چند دنوں میں دوبارہ ملاقات کریں گے ہم سمجھتے ہیں کہ اب جبکہ عام انتخابات کیلئے بگل بجنے والا ہے اور موجودہ حکومت کی صرف 50 دن کی مدت باقی رہ گئی ہے، وزیر اعظم نے نگران وزیر اعظم کیلئے 2 نام اپوزیشن لیڈر کو دیئے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر نے 2 نام وزیراعظم کو دیئے ہیں۔

ملاقات میں طے پایا ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپوزیشن لیڈر کی جانب سے دیئے گئے ناموں پر حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کریں گے جبکہ اسی طرح سید خورشید شاہ اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔ امر واقع یہ ہے کہ آئین میں واضح لکھا ہے کہ نگران وزیر اعظم کی تقرری صدر کریں گے اور اس کا انتخاب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت سے کریں گے، اسمبلی تحلیل کرنے کے 3 دن میں اتفاق رائے سے نگراں وزیر اعظم کا اعلان کرنا ہو گا، اگر تین دن میں حکومت اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہیں ہوتا تو معاملہ اسپیکر کی کمیٹی کو بھیجا جائے گا، پارلیمانی کمیٹی قومی اسمبلی یا سینیٹ سے 8  اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں حکومت اور حزب اختلاف کی مساوی نمائندگی ہو گی، یہی طریقہ کار صوبوں میں بھی اختیار کیا جائے گا، اورصوبائی پارلیمانی کمیٹی کے 6,6 ارکان پر مشتمل ہوں گی، آئین کے مطابق یہ کمیٹیاں تین دن میں نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلی کے نام کو حتمی شکل دیں گی، اگر یہ کمیٹی کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو نام الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں گے جو دو دن میں حتمی فیصلہ کرے گا۔

ہماری رائے میں اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ان حالات میں جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ عام انتخابات موخر ہو سکتے ہیں یا ان کے انعقاد میں جاری احتساب کے عمل کو مکمل کئے جانے تک مزید دو، تین سال لگ سکتے ہیں۔ ہم اس سے قبل بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں جہاں تک کڑے احتساب اور عدالتوں میں زیر سماعے مقدمات کے فیصلے آنے ہیں تو اس صورت میں بھی نظام کو چلتے رہنا چاہئے احتساب کا عمل بھی جاری رہے، عدالتوں کے فیصلے بھی آئیں کیونکہ کوئی ایک سیاسی شخصیت ملک اور قوم کے لئے ناگزیر نہیں ہے۔

اصل بات موجودہ جمہوری نظام کے چلتے رہنے کی ہے۔ اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس کے نہ آنے سے ملک کا نظام رک جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی شخصیت کو نگران وزیر اعظم کی ذمہ داری سونپی جائے جس کی شخصیت بے داغ ہو، بیرون ملک غیر قانونی اثاثے نہ ہوں، عمومی شہرت اچھی ہو آئین کی دفعات 62 اور 63 پر پورا اترتا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ موجودہ حالات میں عام انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنائے۔

دوسری طرف نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات سے متعلق الیکشن کمیشن میں راولپنڈی کی 36 دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا نے وکلا کے دلائل کے جواب میں کہا کہ ہم موجودہ وزیر اعظم کے دبائو میں نہیں آتے اور نہ آئیں گے تو سابق وزیر اعظم کے دبائو میں کیسے آ سکتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے مذکورہ ریمارکس سے یہ بات اور بھی عیاں ہو گئی ہے کہ نئی حلقہ بندیوں میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ سب کام قواعد و ضوابط کے تحت عوامی رائے کے مطابق ہوں گے، اور کسی کا بھی اثر رسوخ الیکشن کمیشن پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ ترقیاتی کاموں اور نئی سرکاری بھرتیوں پر پابندی اس حوالے سے اچھا قدم ہے تاکہ کوئی عام انتخابات پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

No comments.

Leave a Reply