انسانیت مر گئی، بھارت خواتین کے لیے غیر محفوظ

انکشاف ہوا کہ 2012ء سے لے کر 2014ء تک صرف دہلی میں 31446 لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا

انکشاف ہوا کہ 2012ء سے لے کر 2014ء تک صرف دہلی میں 31446 لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا

نیوز ٹائم

کوئی ایک دن ایسا نہیں ہوتا جب آپ ٹی وی اسکرین پر عصمت دری و جنسی زیادتی یا قتل کی خبریں نہ سنتے ہوں۔ کوئی ایک دن ایسا نہیں جب اخبار اٹھاتے ہوں اور اس میں یہ خبر نہ ہو کہ ایک کمسن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے بری طرح زود کوب کر کے بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش جھاڑیوں میں ڈال دی گئی یا اسے کچرے کے ڈھیر میں مار کر پھینک دیا گیا۔ اگر بھارت میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے دہلی کمیشن فار ویمن کی سربراہ سواتی مالیوال کی بات کو تسلیم کیا جائے تو شرح جرم اتنی ہے کہ انسان اپنا سر پکڑ لیتا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے ایک پروگرام میں انہوں نے پولیس میں درج ہونے والی شکایات کا جائزہ لیا  تو انکشاف ہوا کہ 2012ء سے لے کر 2014ء تک صرف دہلی میں 31446 لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا،  جبکہ پولیس میں درج ہونے والی ان ایف آئی آرز کے کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ملی۔  ایسے میں کیا بھارتی حکومت میں یہ ذمے داری نہیں کہ وہ کوئی مضبوط ردعمل دکھائے؟  بھارت میں جنسی زیادتیوں اور عصمت دری کے مقدمات کے تعداد یوں تو ہمیشہ سے ہر صاحب احساس کو رلاتی رہی ہے لیکن حالیہ کچھ دنوں میں جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہوا، وہ ہر انسان کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے لئے کافی ہے، جہاں نہ صرف جنسی زیادتی کے بعد 8 سالہ معصوم بچی کو دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا بلکہ جب بات مجرموں کو سزا دینے کی آئی تو درندگی کے اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور ملزمان کی حمایت میں مظاہرہ ہوا، جبکہ بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی  کہ آصفہ نامی 8 سالہ بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود مجرموں اور ملزموں کو مذہب کی آڑ میں بچانے کی کوشش اپنے آپ میں یہ سوال قائم کرتی ہے  کہ کیا اب جرم و سزا کا تعین انسانی اصولوں کے بجائے مذہب و مسلک کی بنیاد پر ہو گا؟ کیا اب ایسا ہو گا کہ ایک خاص طرز فکر کا حامل جتنا بڑا جرم کرے لیکن نہ صرف یہ کہ اس کا مذہب اس کی سزا دلانے میں معاونت نہیں کرے گا  بلکہ اسے مذہبی بنیادوں پر اس لیے بچا لیا جائے گا کہ جو جرم اس نے کیا ہے وہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں یا ان سے متعلقہ افراد کے ساتھ کیا ہے اور انہیں جینے کا حق نہیں؟

مقتولہ آصفہ کی وکیل دیپیکا سنگھ رجاوت کی حالیہ تقریر سن کر بھی واقعے کا علم رکھنے والے افراد کے لیے افسوس سے کم نہیں۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جو انسانی ہمدردی کے تحت ایک مظلوم کا ساتھ دینے والی جرات مند خاتون کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے اسے ڈرا دھمکا کر خاموش بٹھا دینا چاہتے ہیں؟ Deepika Singh Rajawat نے اپنی تقریر میں کہا کہ مجھے پتا نہیں میں کب تک زندہ ہوں، میری عزت کب تک محفوظ ہے۔ ایک سینئر وکیل کو کسی کا حق دلانے کی پاداش میں دھمکیاں دیا جانا نہایت افسوسناک ہے۔ ان کا بیان کہ مجھے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ہو سکتا ہے مجھے عدالت میں کیس لڑنے سے بھی روک دیا جائے، اپنے آپ میں یہ سوال قائم کر رہا ہے کہ آخر یہ کیسا حیوانی مزاج بھارت پر حاکم ہوتا جا رہا ہے کہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا تو دور کچھ لوگ دوسروں کو بھی کسی کا درد بانٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے؟ آخر ایک کمسن بچی کے ساتھ بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ جرم تو جرم ہوتا ہے اور مجرم مجرم ہوتا ہے۔ وہ کسی کے ساتھ بھی ہو، اگر مجرم کو سزا نہیں ملی تو ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑیں گا، دوسرے مجرموں کے حوصلے بلند ہوں گے اور کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔کہیں صاحبان اقتدار آگے آ کر معاملہ رفع دفع کریں گے اور نہیں ہو سکا تو کیس لڑنے والے وکیلوں کا جینا حرام کر دیں گے تو کہیں پارٹیاں مذہب و مسلک کی بنیاد پر مجرموں کو بچا لے جائیں گی، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے میں انسانیت کا کیا ہو گا؟ انصاف کا کیا ہو گا؟ اگر لوگوں کا عدالت پر سے بھروسا اٹھ گیا اور قانون ان کا محافظ نہ رہا تو ان کی حفاظت کون کرے گا؟ یہ صرف آصفہ کا معاملہ تو نہیں، کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے پہلے جن بچیوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنا کر بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا وہ سب مسلمان تھیں؟  کیا ان کے ساتھ جب وحشیانہ سلوک ہوا تو مسلمانوں نے احتجاج نہیں کیا تھا؟ کیا وہ خاموش تماشائی بنے تھے؟ اگر نہیں تو اب اس مسئلے کو ایسی صورت میں مذہب سے جوڑ کر کیوں دیکھا جا رہا ہے، جب عوامی طور پر اس دل دہلا دینے والے واقعے پر احتجاج مذہب و مسلک سے ماورا ہو کر انسانی بنیادوں پر ہر طرف ہو رہا ہے۔ ایسے میں کتنی عجیب بات ہے کہ ایک تنگ نظر طبقے کی طرف سے Deepika Singh Rajawat کو کیس لڑنے پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ اس سے پیشتر بھی وحشیانہ مزاج رکھنے والے ایک ٹولے نے پوری کوشش کی کہ کیس دب جائے اور بات عدالت تک نہ پہنچ سکے۔ آخر مذہبی منافرت ہمیں کہاں لے کر جا رہی ہے؟ سپریم کورٹ کے بنائے بینچ نے بھی کہا ہے کہ قانون اور اخلاقیات کے تحت فردِ جرم دائر کرنے سے روکنے اور کسی وکیل کو مظلوم کے کنبے کی نمائندگی کرنے سے باز رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ بینچ نے مزید کہا کہ کسی بھی کیس سے منسلک ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا وکیل مقرر کرے  اور اگر وکلا اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ انصاف فراہم کرنے کے نظام کے لیے تباہ کن ہو گا۔اتنا ہی نہیں، حکمران جماعت بی جے پی کے 2 عہدیداروں کے اس سلسلے میں بیانات کا سامنے آنا یہ بتاتا ہے  کہ انسانیت کس قدر مر چکی ہے اور بھارتی معاشرے میں اب انصاف کا حصول کس قدر مشکل ہو گیا ہے  جبکہ ملک میں روز بروز عصمت دری کے بڑھتے واقعات ہر صاحب احساس کو رلاتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہے؟

کچھ سابقہ افسروں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو کھلا خط لکھا ہے، ویسے تو اس طرح کے ہزاروں اور لاکھوں خطوط ہوں گے لیکن یہ خط اس لیے اپنے آپ میں اہم ہے کہ اس کے لکھنے والے وہ ملازمین و سرکاری افسران ہیں جنہوں نے ایک عرصے تک ملک و قوم کی خدمت کی ہے  اور اب ملک جس سمت میں جا رہا ہے اسے دیکھ کر وہ حیران ہیں کہ آخر کیا ہو رہا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم،  ہم سرکاری خدمات سے سبکدوش سابق افسروں کا ایک گروپ ہیں جو بھارتی آئین میں موجود سیکولر، جمہوری، اور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے گزشتہ سال اکٹھا ہوئے تھے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا، دوبارہ کہتے ہیں، ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت سے جڑے ہیں، نہ ہی کسی سیاسی نظریے کے پیروکار ہیں، سوائے ان اقدار کے جو آئین میں موجود ہیں، کیونکہ آپ نے آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، ہم پرامید تھے کہ آپ کی حکومت، جس کے آپ سربراہ ہیں اور سیاسی جماعت جس کے آپ رکن ہیں، اس خطرناک رجحان کا نوٹس لیں گے  اور سب کو بھروسا دلائیں گے، بالخصوص اقلیت اور کمزور طبقے کو کہ وہ اپنے جان و مال اور انفرادی آزادی کو لے کر بے خوف رہیں، تاہم اب یہ امید بالکل مٹ چکی ہے۔ حکومت اپنے بنیادی فرائض کو نبھانے میں ناکام رہی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ایک ملک، اس کی اخلاقی، روحانی اور ثقافتی وراثت، ایک سماج اس کی تہذیبی رواداری، رحم اور ہمدردی یہ سب ناکام رہے ہیں۔ ہندووں کے نام پر ایک انسان کے لیے ایک دوسرے جانور جیسی بے رحمی کو پال کر ہماری انسانیت شرمسار ہو رہی ہے۔ ایک 8 سال کی بچی کے وحشیانہ طور پر ریپ اور قتل کا واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم زوال کی گہرائیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ آزادی کے بعد یہ سب سے بڑا اندھیرا ہے، اس مقام پر ہمیں اندھیری سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر جھکاتے ہیں۔

عزت مآب! ہم یہ خط آپ کو صرف اپنی اجتماعی شرم کی وجہ سے یا اپنی تکلیف یا غم کو آواز دینے یا اپنی ثقافتی قدروں کے خاتمے کا ماتم منانے کے لیے نہیں لکھ رہے، بلکہ ہم لکھ رہے ہیں اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لیے، تقسیم اور نفرت کے اس ایجنڈے کے خلاف، جو آپ کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کو تحفے میں دی ہے۔ اقتدار کے اس غلط استعمال سے زیادہ کلنک کی بات ریاستی حکومت کے ذریعے متاثرہ اور اس کی فیملی کے بجائے مبینہ ملزم کی پشت پناہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری نظام کتنا خراب ہو چکا ہے۔ اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے اسی وقت کچھ کیا جب عدالت نے اس کو مجبور کیا، جس سے اس کے ارادوں کا فریب صاف ظاہر ہوتا ہے۔ دونوں معاملوں اور دونوں ریاستوں میں وزیر اعظم آپ اور آپ کی سیاسی جماعت حکمران ہے۔ اس سچائی کو قبول کرنے کے بجائے آپ خاموش رہے۔ آپ کی خاموشی تب ٹوٹی جب ملک اور غیر ملک میں عوامی غصے نے اس حد تک زور پکڑا جس کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ تب بھی آپ نے محض ظاہری طور پر بدکاری کی مذمت اور شرم کا اظہار کیا، آپ نے اس کے پیچھے گھٹیا فرقہ پرستی کی مذمت نہیں کی نہ ہی آپ نے ان سماجی، سیاسی، انتظامی حالات کو بدلنے کا عزم کیا ہے جن کے تلے فرقہ وارانہ نفرت پھلتی پھولتی ہے۔ ہم ان انصاف دلوانے کے وعدوں سے عاجز آ چکے ہیں، جبکہ سنگھ پریوار کے سائے میں پلنے والے رنگ دار فرقہ وارانہ ہانڈی کو لگاتار ابال پر رکھ رہے ہیں۔

وزیراعظم! یہ دو حادثے محض معمولی جرم نہیں، جہاں گزرتے وقت کے ساتھ ہماری سماجی چادر کے داغ دھل جائیں گے، ہماری قومیت اور اخلاقیات پر لگے زخم بھر جائیں گے اور پھر وہی رام کہانی شروع ہو جائے گی۔ یہ ہمارے وجود پر آئے بحران کا پل، ایک موڑ ہے۔ حکومت کا ردعمل طے کرے گا کہ ایک ملک اور جمہوریت کے روپ میں کیا ہم آئینی قدروں، انتظامی اور اخلاقی نظام پر چھا جانے والے بحران سے نمٹنے کے اہل ہیں یا نہیں؟ ہمیں نہیں معلوم اس خط کا جواب وزیر اعظم کیا دیں گے؟ دیں گے بھی یا نہیں دیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ بھارت جس تیزی کے ساتھ حیوانیت کی کھائی میں گرتا چلا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اگر جرم و سزا پر بھی مذہب کا رنگ چڑھ گیا  اور تمام سزائیں محض ان لوگوں کے لیے سنائی جانے لگیں جو ایک خاص نظریے و مذہب کے ماننے والے ہیں  تو وہ دن دور نہیں جب یہ کہنا مشکل ہو جائے گا کہ دنیا کے نقشے پر کوئی بھارت نامی ایسا ملک بھی تھا جہاں انسان رہا کرتے تھے۔ حالات ایسے ہی رہے تو آنے والی نسلوں کو سچ بتانا مشکل ہو جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply