پاک، امریکا تعلقات، صورتحال تشویشناک ہے؟

انیس سو اکہتر کے بعد ہر 10 سال کے عرصے میں ان کی نوعیت بدلتی رہی

انیس سو اکہتر کے بعد ہر 10 سال کے عرصے میں ان کی نوعیت بدلتی رہی

نیوز ٹائم

پاک، امریکا تعلقات میں وقفے وقفے سے اتار چڑھائو آتا رہا ہے۔ 1971کے بعد ہر 10 سال کے عرصے میں ان کی نوعیت بدلتی رہی۔ ہم کبھی امریکی خارجہ پالیسی کے لیے سنگ بنیاد بن جاتے ہیں تو کبھی لوحِ مزار۔ کیا ہمارے مختلف اداروں کے اعلی ترین فیصلہ ساز کوئی مستقل حکمت عملی رکھتے ہیں، جس کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتے یا وہ تعلقات کی اس نوعیت پر مطمئن ہیں؟

پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر  Cameron Munter نے، جو اس وقت  EastWest Institute کے سربراہ ہیں، اسی ادارے کے چیئرمین Ross Perot, Jr کے ساتھ نیو یارک کے Harvard Club میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کے مہمانوں میں حقانیوں کے حوالے سے پاکستانی پالیسی پر پائی جانے والی تشویش عیاں تھی، حالانکہ بارہا یہ یقین دہانی کروائی جا چکی کہ پاکستان میں Haqqanis or the Quetta Shura کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، لیکن ان کی تشویش جوں کی توں ہے۔ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں میں بھی شکوک سرائیت کر گئے ہیں، وہ پاکستان کی صلاحیتوں پر شک کرنے کے بجائے اندیشوں کو درست سمجھنے لگے ہیں  اور محسوس ہوتا ہے کہ امریکا میں ہمارے دوست ہوں یا دشمن سبھی اسی انداز میں سوچ رہے ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں ناشتے، ظہرانے اور عشائیے میں امریکا فارن پالیسی کونسل (اے ایف پی سی) کے زیر اہتمام Stimson Center and Wilson Center میں منعقدہ مختلف فورمز کے شرکا سے بے لاگ تبادلہ خیال کا موقعہ ملا۔  حال ہی میں قائم ہونے والی پاکستان، امریکن پریس ایسوسی ایشن(پی اے پی اے) کے 35 ارکان کے ساتھ ایک نشست میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ امریکیوں اور پاکستانیوں کے مابین اعتماد کی خلیج پیدا ہو چکی ہے۔

اے ایف پی سی کی نشست میں کانگریس اور سینیٹ کے معاونین اور ممتاز ماہرین نے شرکت کی، اپنے دوست اور  Teacher Eurocheen and Russian expert Dr. Friedrich Star کی کرم فرمائی سے اس میں شرکت کا موقع ملا۔ Hina Higgled نے Stimson Center میں ناشتے پر ہونے والی اس نشست کی خوب میزبانی کی۔ پاکستان میں امریکا کے سابق سفراء Robin Ruffle اور Rick Olsen ، Council of Foreign Affairs کے Courtney Cooper ، سابق سفیر Tarista Shafer ، NDU Dr. Thomas F. Lynch اور دیگر اس تقریب میں شریک ہوئے۔ دونوں سفیر Robin Ruffle اور Tarista Shafer، Wilson Center میں ہونے والی نشست میں بھی تشریف لائیں۔ Michael Kugelman نے پیشہ ورانہ انداز میں تقریب کی میزبانی کی۔  یہاں بھی شرکانے، غصے کے بجائے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان کے موقف کے حوالے سے واشنگٹن کے تحفظات پر بات کی۔

پاک، امریکا تعلقات کے خوش گوار ادوار کے باجود، یہ اعتماد کی خلیج ستمبر 2011ء کے بعد Haqqanis کی وجہ سے وسیع تر ہوئی۔ دسمبر 2013 ء تک انہوں نے شمالی وزیرستان پر قبضہ کیا، جس میں انہیں پاک فوج کی جانب سے مزاحمت یا مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، Haqqanis کو کبھی آئی ایس آئی یا فوج کی معاونت یا پشت پناہی حاصل نہیں رہی،  پاکستانی حدود سے Haqqanis کی قیادت کے احکامات پر افغانستان میں کچھ گوریلا حملے ضرور ہوئے۔  سوات اور جنوبی وزیرستان میں اپنی پیش قدمی کی رفتار قائم رکھنے کے لیے محاذ پر لڑنے والے کمانڈرز نے شمالی وزیرستان میں بھی فوری کارروائی پر زور دیا،  کیانی کیوں تذبذب کا شکار رہے؟  کیا اس لیے کہ ہمیں افرادی قوت یا وسائل کی کمی کا سامنا تھا یا ان کی توجہ پاکستان کے اندر مسلح گروہوں کی جانب سے ممکنہ ردعمل کے خدشات پر مرکوز رہی۔

کابل میں امریکی سفارت خانے پر حقانی کے حملے کے بعد، اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیف اور پاکستان کے سچے دوست، Michael Mullen نے بھی خوب شور کیا، اپنی پہلی پریس کانفرنس اور بعد ازاں امریکی سینیٹ میں غصے اور بے چینی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا  حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کا دست و بازو بنا کر پاکستان، افغانستان میں پرتشدد انتہا پسندی کی تائید کر رہا ہے، پرتشدد انتہاپسندی کو حکومت پاکستان کی پالیسی کا آلہ بنا کر، بالخصوص پاک فوج اور آئی ایس آئی نہ صرف ہمارے اسٹریٹجک تعلقات کے امکانات کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں، بلکہ پاکستان خطے میں اپنے جائز رسوخ اور بطور ایک معزز قوم اپنے لیے مواقع بھی محدود کر رہا ہے۔Michael Mullen کی جانب سے غیض و غضب کے اظہار کے بعد پاک، امریکا تعلقات دن بہ دن زوال پذیر رہے۔ جنرل  David Petraeus, نے بطور کمانڈنگ جنرل اور سی آئی اے سربراہ تسلیم کیا کہ افغانستان میں طالبان کو پاکستانی معاونت ملنے کے براہ راست شواہد  موجود نہیں، زیادہ تر ثبوت اخباری رپورٹ پر مشتمل ہیں اور اسی بنا پر انہیں بلا تبصرہ مسترد کر دیا گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ امریکا میں پاکستانی سفیر Hussain Haqqani کی جانب سے تراشا گیا بدنام زمانہ میمو بھی زرداری حکومت بچانے کے لیے 2011ء میں منظر عام پر آیا۔ سفیر سے ملکی موقف کے بہر صورت دفاع کی توقع کی جاتی ہے لیکن حسین حقانی پاکستان کے خلاف امریکیوں کے شبہات کو ہوا دینے میں مصروف رہے۔ جب امریکیوں کا جانی نقصان ہو یا جان کو خطرہ لاحق ہو تو امریکا کسی قسم کی رعایت نہیں کرتا۔ جب ہم نے یہ لکیر عبور کی تو فوری طور پر ہم قابل برداشت دوست سے ممکنہ حریف ہو گئے۔ Hussain Haqqani کی کھلی مدد کے بعد بھارت نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لے کر باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا۔

دسمبر 2013ء میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملوں میں 149 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 139 بچے تھے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان حملہ آوروں میں سے ایک بھی پاکستانی نہیں تھا۔ حملہ آور چیچن، عرب اور افغان تھے، انھیں افغانستان سے افغان این ڈی ایس آئی کی معاونت حاصل ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے۔ اسی طرح ملالہ کو قتل کرنے کے احکامات جاری کرنے والے Mullah Fazlullah کو افغان حکومت کے عناصر نے اپنے ملک میں پناہ فراہم کی۔ آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد جب جنرل Raheel Sharif نے 15 جون 2014ء کو آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا، زمینی و فضائی کارروائیوں کے سبب، آخر کار شمالی وزیرستان سے حقانیوں کے ٹھکانے ختم ہو گئے۔ 2011تک امریکی محکمہ دفاع پرجوش انداز میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادہ رہتا تھا جبکہ دفتر خارجہ عام طور پر پاکستان کے لیے زیادہ نرم گوشہ نہیں رکھتا تھا۔ آج 7 برس بعد صورت حال برعکس ہو چکی ہے۔ امریکی محاذ جنگ پر کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کر سکے جس کی بنیادی وجہ افغان فوج کی ناقص صلاحیت ہے۔  اس صورت میں افغانوں نے پاکستان پر مسلسل بہتان طرازی کر کے اپنی خراب کارکردگی پر پردہ ڈالنے کا آسان طریقہ اختیار کیا۔ امریکا کے قدم بہ قدم لڑنے والی افغان فوج (خاص طور پر جس کے افسران میں تاجکوں کی اکثریت ہے( امریکی فوجیوں کی پوری ایک نسل کے دل و دماغ میں روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان مخالف پراپیگنڈہ انڈیلتی ہے۔ تاجکوں کے دل میں پاکستان کی نفرت کی جڑیں احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد کی طالبان کے ہاتھوں کابل سے پسپائی سے ملی ہوئی ہیں۔ واشنگٹن میں پائی جانے والی خفگی کو پاکستان کے لیے دبائو قرار دینا قبل از وقت ہو گا۔  ایسی خفگی اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی۔  پاکستان میں عوامی سطح پر بھی امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے لیکن انھیں اس بات کا انداز نہیں کہ یہ کشیدگی یونہی جاری رہی بلکہ اس کا جواب بھی آیا تو حالات کس حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ پاک، امریکا تعلقات میں آنے والے تنزل کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سٹار کے مطابق زخم گہرے ہو چکے ہیں، ان پر مرہم رکھنا بہت دشوار ہو گا۔ بدقسمتی سے اگر ہم کچھ نہیں کرتے یا مزید تاخیر کرتے ہیں تو ہمیں بہت کچھ کھونا پڑ سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply