اخلاقیات کا بحران اور پاکستان

ہر معاشرے کا ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جو ایک طاقتور بندھن کا کام دیتا ہے

ہر معاشرے کا ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جو ایک طاقتور بندھن کا کام دیتا ہے

نیوز ٹائم

ہر معاشرے کا ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جو ایک طاقتور بندھن کا کام دیتا ہے۔ جس کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو اس کا ادراک ہو اور وہ اس کا احترام کرتی ہو۔ رائج الوقت اخلاقیات اور قانونی ضابطہ، جسے اپنے عملدرآمد کے لیے ریاستی طاقت کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، حکمران طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ وہ ایسا ڈھکے چھپے انداز میں کرتا ہے۔ جب تک رائج الوقت سماجی اور معاشی نظام معاشرے کو آگے کی سمت لے جانے کی اہلیت رکھتا ہو، حکمران طبقات کے نظریات، خیالات اور اقدار کو لوگوں کی اکثریت اسے تسلیم کر لیتی ہے۔ اخلاقیات کی طبقاتی اساس کو ٹراٹسکی یوں بیان کرتا ہے کہ  حکمران طبقہ اپنے مقصد کو معاشرے پر جبراً لاگو کرتا ہے اور اسے اِن تمام ذرائع کو غیر اخلاقی تصور کرنے کا عادی بنا دیتا ہے جو اس کے مقاصد سے متصادم ہوتے ہیں۔ یہ سرکاری اخلاقیات کا سب سے بڑا جرم ہے۔  یہ اکثریت کے لیے نہیں بلکہ روز بروز کم ہونے والی اقلیت کے لیے  عظیم ترین ممکنہ خوشی کے تصور کو آگے بڑھاتی ہے۔ ایسی حکمرانی، جو محض طاقت کے زور پر ایک ہفتہ بھی قائم نہیں رہ سکتی، کو اخلاقیات کے سیمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔

گزشتہ 10 سال سے سرمایہ داری کا طویل ہوتا ہوا بحران تہذیب اور اخلاقیات پر بھی انتہائی منفی طور پر اثرا نداز ہو رہا ہے۔ اس کا اظہار ہر جگہ سماجی انتشار کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔ سرمایہ دار خاندان سمیت اس نظام کا ہر ادارہ ٹوٹ پھوٹ رہا ہے لیکن اس کی جگہ لینے کے لیے سماجی طور پر کوئی نیا ڈھانچہ موجود نہیں ہے  جس کی وجہ سے کروڑوں ضرورت مند خاندان ذلت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سینئر تجزیہ نگار آصف رشید کے مطابق آج معاشرے کا ہر شعبہ پہلے کی نسبت زیادہ انتشار اور ذلت کا شکار ہے۔ سیاست، صحافت، ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، رشتے، جذبے، انسانی رویے نیز ہر شعبہ ہائے زندگی میں تنزلی، گرائوٹ اور بیزاری صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ فرسودہ معاشی و اقتصادی نظام کے زوال اور انحطاط کا موضوعی اظہار ہے۔ معاشی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ اس تنزلی اور تبدیلی کا بنیادی محرک ہے۔ تمام طبقات مختلف اعتبار میں اس بحران سے متاثر ہو کر ایک تذبذب، بے چینی اور بیزاری کا شکار ہیں۔ تمام سماجی ادارے ایک ہلچل اور اضطراب میں مبتلا ہو کر کسی بہتر اور ترقی پسند مستقبل کی امیداور ناامیدی کے مختلف درجوں کی مایوسی میں مبتلا ہیں۔ عمومی سوچ اور کیفیت کے حوالے سے طبقاتی تضادات اور بگڑی ہوئی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہمارا سماج صرف جسمانی طور پر ہی بیمار نہیں ہے بلکہ لوگوں کی روح اور احساس بھی گھائل ہو چکے ہیں، عوام کی نفسیات مجروح ہے۔ غربت، محرومی اور سماجی و معاشی دبائو نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔

روزنامہ خبریں میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کا 30 فیصد حصہ (تقریباً 4 کروڑ افراد) کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں اور ان میں سے 50 فیصد کو باقاعدہ نفسیاتی امراض کے ہسپتالوں میں داخل کرانے کی ضرورت ہے۔ ان اعداد و شمار سے بھی زیادہ خوفناک صورتحال ڈبلیو ایچ او کی حالیہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ہر سال 1 لاکھ 50 ہزار افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 7 ہزار جان کی بازی ہار جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہزاروں ایسے واقعات ہیں جو کہیں بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔ تشدد اور قتل کے واقعات کے حوالے سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا خطرناک ملک بن چکا ہے۔ قتل یا خودکشی رومانوی اقدامات یا واقعات نہیں ہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ٹھوس معاشی اور معاشرتی محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ ذاتی عدم تحفظ، غربت، تعلیم کی کمی، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ جہاں زندگی عذاب بن جائے وہاں انسانی جان کی قدر و قیمت ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں غربت و افلاس کا ننگا ناچ ہو وہاں کبھی صحت مند معاشرتی رویے جنم نہیں لے سکتے۔ سرمایہ داری کا بحران سماجی موت کی بڑی وجہ ہے اور اس نظام پر براجمان سرمایہ دار لٹیرے اس قتل عام اور بربریت سے بھی منافع کما رہے ہیں۔

ایک طبقاتی معاشرے میں ثقافت بھی طبقاتی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ امیر اور غریب، ظالم اور مظلوم، سرمایہ دار اور مزدور طبقے کی معیشت، ثقافت اور طرز زندگی نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہوتی ہیں۔ محکوم اور بے وسیلہ آبادی کی اکثریت آج محض زندہ رہنے کی تگ ودو میں ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور سرمائے کی منڈی میں خود کو نیلام کر کے جینے کے لیے چند سانسیں خرید پاتی ہے۔ اس پسماندہ اور منتشر کیفیت میں مجبور عوام محض تحفظِ ذات کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اجتماعی سوچ، فلاح و بہبود اور ہمہ گیر ثقافتی مفادات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ انفرادی بقا کے چکر میں سسک رہے ہیں۔  دوسری طرف حکمران طبقہ جو ذرائع پیداوار پر قابض ہے  اس کی ثقافت، اخلاقیات، طرز زندگی کا مقصد محکوم طبقے کا استحصال، لوٹ کھسوٹ اور جبر ہے۔ عوام سے بیگانہ ہو کر انفرادیت کے چنگل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کے لیے صرف جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں کے علاوہ دینے کو کچھ نہیں ہے۔ پسماندگی اور محرومی عوام کا مقدر بنا دی گئی ہے اور یہ محرومی اور پسماندگی پھر مایوسی، تشدد، دہشت گردی، جرائم اور قتل و غارت کی شکل میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ اس وقت سیاسی سطح پر کوئی بڑی ہلچل نہ ہونے اور تحریک کی عدم موجودگی کے باعث سماج میں بظاہر ایک نسبتاً ٹھہرائو اور جمود کی کیفت میں ہے۔ نئے اور پرانے تعصبات معاشرے پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انتشار، اور مایوسی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے روز پرتشدد اور انسانیت سوز واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ عدم برداشت، دھوکہ دہی، منافقت سماجی معمول بن چکا ہے، ہر رشتہ بے معنی اور ہر جذبہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ہر فرد انفرادی بقا کی دوڑ میں بھاگ رہا ہے۔ معاشی و اقتصادی بحران اتنا خوفناک ہے کہ اس نے سماجی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ مستقبل کا خوف لوگوں کو ماضی کے تعصبات میں پناہ لینے پر مجبور کر رہا ہے۔ کوئی آسرا اور امید نظر نہیں آتی، ہر رشتہ اور ناطہ مالیاتی مفادات کے تابع ہے، عزت اور وقار کو بھی سرمائے اور دولت سے تولا جانے لگا ہے۔ خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

بائیں بازو کے تجزیہ نگار ڈاکٹر لال خاں کا کہنا ہے کہ ہر معاشرے میں ایسے دور آتے ہیں جہاں ماضی کے تعصبات غالب آ جاتے ہیں۔ سرمایہ دارنہ نظام کی بے حسی اور وحشیانہ لا پرواہی نے جتنا آج یہاں بسنے والے انسانوں کو ستایا ہوا ہے اتنا شائد ہی کبھی ستایا ہو۔  ہر شخص خوشی سے عاری ہے۔ سرد آہوں اور زرد چہروں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے۔ دوسری طرف اخلاقی عارضوں کا یہ عالم ہے کہ شناخت سے عاری اس معاشرے میں یہ لوگ بغیر وجہ کے بھی جھوٹ بولتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے جھوٹ جن سے ان کا یا کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لالچ، خود غرضی، تعصب، مقابلہ بازی، دھوکہ دہی اور جھوٹ یہ تمام وہ صفات ہیں جو یہ نظام یہاں بسنے والے انسانوں کے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھر رہا ہے۔ پھر اپنے تمام ممکنہ ذرائع سے یہی حکمران طبقہ، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ لوگ فطرتاً ہی برے ہوتے ہیں، اخلاقیات اور اچھائی کا پاٹ پڑھاتا ہے۔ بائیں بازو کے دانشوروں کے مطابق اگر نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے درمیان سے مقابلہ بازی، لالچ اور تعصب کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تمام افراد کو یکساں بنیادوں پر تعلیم اور روزگار فراہم کیا جائے تو جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی بلکہ یہ دلیل ہی بے وقعت ہو جائے گی۔ مگر یہ تمام اقدامات موجودہ رائج نظام کے بس میں نہیں ہیں بلکہ موجودہ رائج نظام اس صلاحیت سے ہی عاری ہے اور اس نظام کو بدلے بغیر ان مسائل کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔

No comments.

Leave a Reply