تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا موجوزہ الحاق خطرے میں پڑ گیا

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا موجوزہ الحاق خطرے میں پڑ گیا

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا موجوزہ الحاق خطرے میں پڑ گیا

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان الحاق کی کوششوں کے خلاف اوپر کی سطح پر شدید غم و غصہ ظاہر کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے سے آگاہ معتبر ذرائع کے بقول اس مجوزہ الحاق پر نہ صرف غم و غصہ کا اظہار کیا گیا  بلکہ یہ ملاپ کرا کے مستقبل میں دونوں پارٹیوں کی اتحادی حکومت بنانے کے خواہش مندوں کو سخت الفاظ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ یہ اقدام کسی صورت قابل قبول نہیں، لہذا اس سلسلے میں کی جانے والی کوششیں ختم کر دی جائیں۔ ذرائع اس ساری داستان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ احتساب کے جاری عمل کو بلاامتیاز ثابت کرنے کے لیے جلد ہی پیپلز پارٹی کے خلاف بھی گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔ کیونکہ پالیسی ساز یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ صرف نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے خلاف یکطرفہ احتساب کا تاثر مزید گہرا ہو۔ لہذا پیپلز پارٹی کے مختلف رہنمائوں کی پہلے سے تیار کردہ فہرستوں کی دھول مٹی صاف کی جا رہی ہے۔ تاکہ نیب اس معاملے میں تحقیقات کا آغاز کر سکے اور یہ کہ نگراں دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی طرح پیپلز پارٹی کی چیخیں بھی سنائی دیں گی۔ ذرائع کے مطابق یہ عمل انتہائی اعلیٰ سطح کی ہدایت پر شروع ہونے جا رہا ہے لہذا نچلی سطح پر جو قوتیں اندرون خانہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں الحاق کرا رہی تھیں، انہیں کہ کوششیں ختم کرنے کا پیغام مل چکا ہے۔ اس کے اثرات اانے والے چند ہفتوں میں واضح ہو جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق پالیسی ساز کسی صورت پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ کوشش ہو رہی ہے کہ اس بار سندھ حکومت بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے جائے۔ کیونکہ آنے برسوں میں سی پیک اور دیگر عالمی معاملات کو لے کر کراچی ایک اہم حیثیت اختیار کرنے والا ہے۔ لہذا پالیسی ساز نہیں چاہتے کہ پاکستان کی لائف لائن کراچی ایک بار پھر ماضی جیسی صورت حال کا شکار ہو جائے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پالیسی سازوں نے آصف زرداری سے جتنا کام لینا تھا، وہ لے لیا۔ قبل ازیں سابق صدر اور ان کی پارٹی کے لوگوں پر اس لئے ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کہیں مسلم لیگ ن کے ساتھ نہ جا ملے۔ ذرائع کے بقول لیکن اب اس کی پرواہ نہیں ہے کہ احتساب کا دائرہ تنگ ہونے پر اگر پی پی اور مسلم لیگ ن ایک بھی ہو جاتی ہیں تو دونوں پارٹیاں فی الحال کسی قسم کی قانون سازی نہیں کر سکتیں کہ اسمبلیاں تحلیل ہو کر نگران حکومت آنے والی ہے۔ جبکہ اس سے قبل یہ خدشہ تھا کہ بیک وقت دونوں پارٹیوں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسے جانے پر ایک نہ ہو جائیں، یوں مسلم لیگ ن نے پہلے عدلیہ اور پھر فوج کے حوالے سے جن فوری آئینی ترمیم کا ڈرافت تیار کر رکھا تھا، پی پی کی مدد سے یہ ترامیم منظور کر لی جاتیں۔ یہ خطرہ ٹل گیا ہے اور اب یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب الیکشن میں مسلم لیگ ن دوبارہ دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنا لے۔ لیکن یہ امکان مسدود کر دیا گیا ہے۔

ذرائع بتایا کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے الحاق کی کوشش کرانے والوں کو اگرچہ سخت پیغام اب دیا گیا ہے تاہم اس پر عمل پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ 15 کے قریب سابق ارکان اسمبلی پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا تحریک انصاف میں ضم ہونا، اس پلان پر عمل کا پہلا قدم تھا۔ یہ تصدیق پی پی پی کے اندرونی ذرائع نے بھی کی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اچانک پی ٹی آئی میں انضمام نے پارٹی کو دھچکا لگایا ہے۔ ان ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے یہ پلان ترتیب دیا تھا کہ جنوبی اور سینٹرل پنجاب کے جن انتخابی حلقوں میں پی پی پی کے امیدوار کمزور پوزیشن میں ہوں گے۔ وہاں پیپلز پارٹی آزاد امیدواروں کی حمایت کرے گی تاکہ منتخب ہونے کی صورت میں ان آزاد امیدواروں کو حکومت بنانے سے متعلق سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استمعال کیا جا سکے۔ تاہم قیام کے چند ہفتوں بعد ہی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے تحلیل ہونے اور پی ٹی آئی کا حصہ بن جانے سے پیپلز پارٹی کا پلان بری طرح متاثر ہوا جبکہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 2013ء کا الیکشن جیتنے والے متعدد ارکان اسمبلی کی تحریک انصاف میں شمولیت نے پیپلز پارٹی کی منصوبہ بندی کو بلکل چوپٹ کر دیا ہے کہ قبل ازیں ان ارکان میں سے بھی بیشتر آزاد الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف نے الیکشن 2018ء میں زیادہ انتخابی ٹکٹ الیکٹ ایبلز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فتح یقینی بنایا جا سکے۔ ان میں سے زیادہ تر الیکٹ ایبلز وہ ہیں جنہوں نے حال ہی میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ پارٹی کے ایک عہدیدار کے بقول ایسے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کی تعداد 70 کے قیب پہنچ چکی ہے  جبکہ تحریک انصاف کو اقتدار میں دیکھنے کے خواہش مندوں کا پلان ہے کہ اگر تحریک انصاف تمام تر کوششوں کے باوجود بھی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور حکومت بنانے کے پیپلز پارٹی کی محتاج ہو جاتی ہے تو پھر اس کے سہارے کے لیے پیپلز پارٹی کے بجائے ایم کیو ایم ، ایم ایم اے، مسلم لیگ ق، فنکشنل لیگ کی سربراہی میں بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، اے این پی، پی ایس پی، ایم  کیو ایم پاکستان اور آزاد ارکان کی مدد لی جائے گی۔

ادھر مشرف دور کی کنگ پارٹی مسلم لیگ ق کے قیام کے عمل میں شریک ایک ذریعے کے مطابق گیم ابھی جاری ہے، ختم نہیں ہوا۔اس وقت تحریک انصاف کو کنگ پارٹی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔ اپنے دور میں مشرف نے مسلم لیگ ق بنانے کے لیے نیب سمیت تقریباً ہر ادارے کو استعمال کیا تھا۔ اس کے باوجود ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ایک ووٹ کی کمی باقی رہ گئی تھی۔ اس کمی جو جھنگ سے کامیاب ہونے والے سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ اعظم طارق کا ووٹ لے کر پورا کرنا پڑا تھا۔ ذریعے کے مطابق درجنوں الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے بعد بھی تحریک انصاف کے مددگاروں کو یقین نہیں ہے کہ عمران خان تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ تحریک انصاف میں ابھی ٹکٹوں کی تقیسم پرجھگڑا متوقع ہے۔ پی ٹی آئی قیادت ٹکٹ الیکٹ ایبلز کو دینا چاہتی ہے جس پر پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور رہنما خوش نہیں۔ یہ مرحلہ گزر گیا تو پھر حکومت مل جانے کی صورت میں وزارتوں پر لڑائی جھگڑے ہوں گے۔ اس وقت تحریک انصاف میں شمولیت کرنے والے پیپلز پارٹی اور آزاد ارکان کا غلبہ ہے۔ زریعے کے مطابق پالیسی سازوں نے ہ طے کیا ہے کہ نئی حکومت آنے کے بعد بھی احتساب کی لہر کو برقرار رکھا جائے گا۔ لہذار اس کی لیپٹ میں وہ بھی آئیں گے جو اس وقت شلٹر کے لیے تحریک انصاف میں جا بیٹھے ہیں۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے والے کے لیے اقتدار کانٹوں کا تاج ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply