امریکہ میں بدترین عالمی مالیاتی بحران

دو ہزار آٹھ سے شروع ہونے والے بدترین عالمی مالیاتی بحران

دو ہزار آٹھ سے شروع ہونے والے بدترین عالمی مالیاتی بحران

نیوز ٹائم

دو ہزار آٹھ سے شروع ہونے والے بدترین عالمی مالیاتی بحران نے دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والے امریکہ سمیت تمام ممالک کو گھٹنوں تک جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔  زائد پیداوار اور کم کھپت کی وجہ سے جنم لینے والے اس بحران کے خاتمے کے بارے میں سرمایہ داروں کے سنجیدہ تجزیہ نگار ہر سال امید افزا پیش گوئیاں کرتے رہے  2012 میں اکانومسٹ جیسے سنجیدہ جریدے نے بھی یہ کہا کہ 2015 ء کے بعد بحران ختم ہو جائے گا  مگر بحران کی شدت مزید گہری ہوتی چلی جا رہی ہے اور اب وہی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں  کہ یہ بحران 2025 ء سے پہلے ختم نہیں ہو سکتا  مگر بائیں بازو کے دانشوروں کے مطابق پوری دنیا میں سرمایہ داروں کو ساکت اور غریبوں کو مزید غریب کرتے چلے جانے والے بحران کی سابق شکل میں بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔  اگر بحالی شروع بھی ہوئی تو وہ انتہائی نچلی سطح کی ہو گی جس سے دنیا بھر کو چلانے سے معذور ہونے والے عالمی نظام سے قطعی یہ امید نہیں رکھی جا سکتی  کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کا دور کبھی لوٹ کر واپس آ سکتا ہے  ان دانشوروں کے مطابق بالآخر بائیں بازو کے استاد دانشوروں کے وہ تجزیے درست ثابت ہو رہے ہیں  جن میں انہوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ سرمایہ داری کو ختم کرنے والا  کیڑا خود اس نظام کے اندر سے ہی جنم لے گا۔

گزشتہ دنوں مارکس کی 200ویں سالگرہ کے موقع پر نیو یارک ٹائمز سے لے کر بی بی سی تک جیسے عالمی نشریاتی اداروں نے جو تبصرے شائع کیے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ نظام کی جگہ اب ایک زیادہ بہتر اور جدید نظام لائے بغیر اس دنیا کو چلانا ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت کو ہی مالی اور ذہنی طور پر تباہ نہیں کیا بلکہ قلیل سرمایہ داروں کے بڑھتے ہوئے منافعوں اور شرح منافع کی ہوس نے امریکہ سمیت تمام ممالک کو اس قدر مقروض کر دیا ہے کہ وہ اپنے قرضے تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ادا نہیں کر سکتے۔

اس سلسلہ میں پاکستان کی مثال لی جائے تو پاکستان اب تک مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں کے ہر ایک ڈالر کے عوض 13 ڈالر قرض اور سود کی شکل میں ادا کر چکا ہے مگر قرضے ہیں کہ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگر امریکہ جیسی نام نہاد سپر پاور کے قرضوں کو دیکھا جائے تو اس وقت امریکا کے ذمے قرضوں کی مالیت 21 ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے اور امریکی بانڈز خریدنے میں یورپی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی اب کم ہے۔ اس کے علاوہ ان قرضوں کی مالیت میں 25 ہزار ڈالر فی سیکنڈ کی شرح سے اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ امریکا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے،  جنہیں اپنی آبادی کے لحاظ سے فی کس بنیادوں پر اوسطاً سب سے زیادہ عوامی قرضوں کا سامنا ہے اور یہ قرضے بہرحال کبھی واپس نہیں کیے جا سکتے۔ واشنگٹن حکومت کے ذمے واجب الادا قرضوں کی موجودہ مالیت 21 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔  اس کا مطلب ہے 210 کھرب یا 21 ہزار ارب ڈالر۔  یہی نہیں ان عوامی قرضوں کی مالیت میں ہر سیکنڈ بعد 25 ہزار ڈالر کا اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔

امریکی ریاست کے ذمے اتنے زیادہ قرضوں کو مالیاتی ماہرین ایک ایسا انتہائی اونچا پہاڑ قرار دیتے ہیں، جس کی بلندی ہر لمحہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ جس رفتار سے ان قرضوں کی مالیت بڑھتی جا رہی ہے، ماہرین کے نزدیک صرف 2 سال بعد ان رقوم کی مجموعی مالیت میں سالانہ ایک ٹریلین یا 1000 ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہونے لگے گا۔ ماضی میں امریکی سرمایہ داروں کو کچھ فائدہ سود کی شکل میں یعنی ٹریژری بانڈز پر منافع کے نام پر دیا جاتا رہا ہے اور بانڈز کی فروخت سے حاصل کردہ رقوم سے قرضوں کا ایک حصہ واپس کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ خاص طور پر ان حالات میں کہ بظاہر امریکی معیشت کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے اور یورپی سرمایہ کار پھر بھی امریکا کے سرکاری مالیاتی بانڈز کی منڈی میں اپنا سرمایہ لگانے میں اب زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

سال 2018 ء کی ابتدا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ امریکی امداد کس طرح مدد کرتی ہے؟ ماہرین اقتصادیات کے مطابق جو سرمایہ کار کسی ملک کے ٹریژری بانڈز خریدتے ہیں،  وہ دراصل اس ملک کے قرضوں کا کچھ حصہ اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ اب امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنے قرضوں کے لیے خریدار نہیں مل رہے اور ماہرین یہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ آیا اس بات پر واشنگٹن حکومت کو تشویش ہونا شروع ہو چکی ہے۔امریکا پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود عوامی قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہو چکا ہے  کہ پوری دنیا کے تمام ارب پتی انسانوں کی دولت کو جمع کیا جائے اور اس دولت سے امریکا کے ذمے قرضے واپس کر دیے جائیں تو پھر بھی ان قرضوں کا نصف بھی ادا نہیں ہو سکے گا۔

شماریاتی حوالے سے یہ بات بھی واشنگٹن حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے کہ اگر امریکا کو اپنے ذمے تمام قرضے ادا کرنا ہیں، تو اس کے لیے اتنی زیادہ رقوم درکار ہوں گی کہ مثال کے طور پر دنیا کے ہر انسان کو امریکا کو قریب 3000 ڈالر عطیے کے طور پر دینا ہوں گے۔ امریکا کے ان مالیاتی مسائل کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب ایک ایسی تنظیم کے پاس ہے،  جو شروع ہی سے اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ امریکا میں ملکی بجٹ کے معاملے میں زیادہ احساس ذمے داری کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اس تنظیم کا نام ہے، کمیٹی برائے ذمے دارانہ وفاقی بجٹ۔  اس کمیٹی کے نائب صدر مارک گولڈ وائن کہتے ہیں، امریکا کا مستقل بنیادوں پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے  کہ وہ اس سے کہیں زیادہ رقوم خرچ کرتا ہے، جتنی کہ اسے ٹیکسوں سے آمدنی ہوتی ہے۔  گولڈ وائن کے بقول یہ بات اس لیے اور بھی تشویشناک ہے کہ اب امریکی بانڈز کی خریداری میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

اقتصادی اور سیاسی سطح پر امریکا کا ایک بڑا حریف ملک چین ہے،  جو اب کافی برسوں سے جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ خود چین تک نے اتنی زیادہ مالیت کے امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں کہ دیکھا جائے تو امریکا کے وفاقی بجٹ کا کافی زیادہ حصہ تو چینی سرمائے سے چلایا جا رہا ہے۔ چین نے امریکی ٹریژری بانڈز کی شکل میں واشنگٹن کے ذمے جو قرضے خرید رکھے ہیں،  ان کی مجموعی مالیت 1.2 ٹریلین یا 1200 ارب ڈالر بنتی ہے۔  اس کے علاوہ جرمن سرمایہ کار اداروں اور شخصیات نے بھی امریکا کے قریب 90 ارب ڈالر کے قرضے انہی بانڈز کی شکل میں خرید رکھے ہیں۔ سنجیدہ جریدے ایشین مارکسسٹ ریویو کا کہنا ہے کہ دنیا کی معیشت کے بڑے حصے پر قابض امریکہ آج دنیا کا مقروض ترین ملک بن چکا ہے  اور یہ صورتحال صرف امریکہ میں ہی نہیں ہمیں یورپ کے اندر بھی واضح نظر آ رہی ہے۔  ان ملکوں کے حکمران مستقل کٹوتیوں، نجکاری اور ڈان سائزنگ کے ذریعے مزدوروں کی بڑی تعداد کو بیروزگار کر رہے ہیں وہ ریاستوں کو بچانا چاہتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں پھیلنے والی بیروزگاری سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور اس طرح ہر خطے میں عوام کی بڑی تعداد خریداری کرنے سے قاصر ہو چکی ہے  کم ہوتی آمدن اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہر خطے میں جنم دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت فرانس سے لے کر بھارت تک ہمیں ہر جگہ تحریکیں ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ جریدے کے مطابق وہ دن جلد قریب آ رہے ہیں جب دنیا کی اکثریتی آبادی کو دو وقت کی روٹی سے دور کر دینے والی سرمایہ داروں کی اقلیت کے خلاف دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی ان تحریکوں کا سمندر اس طبقاتی نظام کو بہا لے جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply