دوسری جمہوری حکومت کی 5 سالہ آئینی مدت مکمل، آیئے مثبت و منفی پہلوئوں پر غور کریں

دو روز بعد موجودہ وفاقی حکومت سبکدوش اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی

دو روز بعد موجودہ وفاقی حکومت سبکدوش اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی

نیوز ٹائم

جمہوری حکومت کی   5 سالہ آئینی مدت مکمل کر کے دو روز بعد موجودہ وفاقی حکومت سبکدوش اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی جس کے بعد آئین کے تحت جسٹس (ر) ناصر الملک کی قیادت میں نگران حکومت ملک کا نظم و نسق سنبھالے گی اور الیکشن کمیشن اگلی مدت کے لئے 25 جولائی کو عام انتخابات کرائے گا  جن کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں بنیں گی اور جمہوریت کے نئے سفر کا آغاز ہو گا۔  یہ پہلا موقع ہو گا جب ملک میں دوسری منتخب جمہوری حکومت اپنی میعاد پوری کر کے اقتدار تیسری منتخب حکومت کے حوالے کرے گی۔ پہلی منتخب حکومت پیپلز پارٹی کی تھی جس نے اپنی معیاد پوری کی اس سے قبل اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی توڑ دی جاتی تھیں  منتخب حکومتوں کے تختے الٹ دیئے جاتے تھے اور ملک پر کئی کئی سال کے لئے آمریت مسلط ہو جاتی تھی۔

عوام تیسری مسلسل جمہوری حکمرانی کی طرف اس سفر کا بہت گرم جوشی سے انتظار کر رہے ہیں  وہ اس توقع کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے کہ ان کے منتخب نمائندے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر ایسے فیصلے کریں جن کی بدولت ملک ان مسائل و مشکلات سے نجات پائے  جن سے وہ ایک عرصے سے اور اس وقت بھی دوچار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ قوم فی الوقت جن غیر یقینی سیاسی معاشرتی اور معاشی حالات سے گزر رہی ہے ان کی موجودگی میں کیا واقعی ایسا ممکن ہو گا؟

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس حوالے سے کچھ زیادہ پرامید نظر نہیں آتے ایک نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ جیسے حالات آج ہیں ان میں ترقی کا خواب کیسے پورا ہو گا جب ملک چلانا ناممکن ہو رہا ہو،  جب بیورو کریسی کام نہ کر سکتی ہو، کوئی حکومتی اہلکار اس ڈر سے فیصلہ نہ کرنا چاہتا ہو کہ کل کوئی اسے پکڑ لے گا اور بچانے والا کوئی نہیں ہو گا  انہوں نے ان حالات کا ذمہ دار عدلیہ، نیب اور کسی حد تک میڈیا کو قرار دیا اور کہا کہ مستقبل کی حکومت کو بھی انہی مشکلات کا سامنا ہو گا جو آج کی حکومت کو درپیش ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے لئے نقصان دہ ہے ملک اسی صورت میں ترقی کر سکتا ہے جب فیصلہ سازی کا عمل کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رہے۔ وزیر اعظم نے عام انتخابات کے لئے ایسا ماحول بنانے کی ضرورت پر زور دیا  جس میں ووٹر اپنی رائے کا مکمل شفافیت اور کسی دبائو کے بغیر اظہار کریں جناب شاہد خاقان عباسی کے تحفظات اور خدشات ان کی سیاسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ دوسری قوتیں بھی ان سے متفق ہوں مگر ہمیں موجودہ نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا ضرور جائزہ لینا چاہئے  اور سوچنا چاہئے کہ ہم سے ماضی میں کیا غلطیاں سرزد ہوئیں جنہیں مستقبل میں دہرانا نہیں چاہئے۔ اس کے بعد ہمیں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے جس میں پچھلی غلطیوں کے ازالے اور خامیوں سے پاک طرز حکمرانی کی ضمانت دی گئی ہو۔ ایسا کرتے وقت ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن ممالک میں جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے وہاں اس طرح کی سیاسی محاذ آرائی نہیں ہوتی جیسی پاکستان میں معمول بن گئی ہے  ان ملکوں میں دھرنوں کے ذریعے نظام زندگی مفلوج کرنے کی کوشش ہوتی ہے نہ سیاسی مخالفین پر مقدمات کی بھرمار  کہ جن کے نتیجے میں وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑے سیاستدانوں کی کردار کشی ہو اور ایشوز پر بحث کی بجائے شخصیات کو نشانہ بنایا جائے انتخابی مہم کے لئے ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے جس پر تمام پارٹیاں عمل کریں۔

پہلے تو شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے پھر جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے اسے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت قائم کرنی چاہئے  2018 کے انتخابات قوم اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ماضی و حال کے تناظر میں خود احتسابی کے ذریعے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اچھی طرح جائزہ لیں اور ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان کے لئے تن من دھن سے کام کرنے کا عہد کریں۔

No comments.

Leave a Reply