ایک ملزمہ جینا ہسپل سی آئی اے چیف بن گئی

امریکہ کی سی آئی اے چیف ، جینا ہسپل

امریکہ کی سی آئی اے چیف ، جینا ہسپل

نیوز ٹائم

میرے ایک استاد کا کہنا ہے، آپ کسی امریکی یا یورپی سے ملیے، وہ انفرادی طور پر تو جوش سے ملے گا۔ خوش مزاج ہو گا اور انسان دوستی کی باتیں کرے گا۔ مگر جب قومی مفاد کا معاملہ آئے، تو الٹی گنگا بہنے لگتی ہے۔ وہی امریکی یا یورپی، خاص طور پر ان کا حکمران طبقہ قومی مفاد پورا کرنے کی خاطر کوئی بھی برائی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

درج بالا عجوبے کا ثبوت حال ہی میں سامنے آیا جب امریکی حکمران طبقے نے ایک 61 سالہ خاتون، جینا ہسپل (Gina Haspel ) کو دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا حالانکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کی رو سے محترمہ Gina Haspel کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ اس انوکھے عمل کی داستان امریکی حکمران طبقے کی منافقت کا پردہ چاک کرتی ہے۔

Gina Haspel 1985ء میں سی آئی اے کا حصہ بنی۔ تب تک اس کا فوجی شوہر اسے طلاق دے چکا تھا۔ Gina Haspel نے پھر ساری عمر شادی نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی بچہ ہے۔ گویا وہ ماں بننے کے عظیم الشان تجربے سے نہیں گزری جو ایک عورت کو محبت، رحم اور ہمدردی کے اعلی جذبات سے بھر دیتا ہے۔شروع دن سے سی آئی اے میں جینا کی ملازمت خفیہ تھی۔ وہ پہلے رپورٹنگ آفیسر کی حیثیت سے مختلف ممالک میں تعینات رہی۔ تجربے اور مدت ملازمت میں اضافہ ہوا، تو اسے مختلف ملکوں میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف بنایا گیا۔ اسی دوران پراسرار انداز میں 9/11 کا  واقعہ رونما ہوا اور امریکی حکومت خونخوار بھیڑیے کی طرح القاعدہ تنظیم، افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوںکا تعاقب کرنے لگی۔ اس تعاقب میں امریکی فوج اور امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے پیش پیش تھی۔

مارچ 2002ء میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے فیصل آباد (پاکستان) سے ایک غیر ملکی کو گرفتار کر لیا۔ دنیا والوں کو بتایا گیا کہ وہ القاعدہ رہنما، Osama bin Laden کا خاص ساتھی ہے۔سی آئی اے پھر اسے تفتیش کرنے تھائی لینڈ لے گئی۔ تھائی لینڈ ہی میں سی آئی اے نے اپنا پہلا تفتیشی مرکز قائم کیا جہاں اس غیر ملکی کو رکھا گیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے بعد ازاں دیگر ممالک میں بھی ایسے تفتیشی مرکز کھول لیے جہاں گرفتار شدگان شدید تشدد کا نشانہ بنے۔ یہ تفتیشی مراکز اب بلیک سائٹ (Black site) کہلاتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں سی آئی اے نے اپنے پہلے تفتیشی مرکز کو کیٹس آئی(Cats Eye) اور ڈیٹینشن سائٹ گرین(Detention Site Green) کہہ کر بھی پکارا۔امریکی خفیہ ایجنسی Cats Eye کا انچارج ایسی شخصیت کو بنانا چاہتی تھی جو سخت مزاج ہو اور مسلم جہادیوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دے۔

تب ہی نگاہ انتخاب Gina Haspel پر جا ٹھہری جو سی آئی اے کے اندرونی حلقوں میں اپنی سے بے رحمی اور سخت مزاجی کی وجہ سے خونخوار جینا (Bloody Gina) کے خطاب سے مشہور ہو چکی تھی۔ چنانچہ مشہور امریکی جریدے، Rolling Stone اور دیگر ممتاز امریکی اخبارات کی رو سے Gina Haspel سی آئی اے کے پہلے تفتیشی مرکز کی چیف بنا دی گئی۔  یہ یقینی ہے کہ Gina Haspel کو ہدایت دی گئیں کہ ملزم سے القاعدہ کے راز اگلوانے ہیں چاہے اس پر تشدد کرنا پڑے۔  مشہور امریکی نیوز سائٹ، اے بی سی نیوز کی ایک رپورٹ میں درج ہے کہ Gina Haspel نے تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کی غرض سے ملزم کو راز اگلوانے کے لیے بے حد تشدد کا حربہ استعمال  کرتی رہی۔  یہ طریقے بعد ازاں Enhancecl Interrogation Techinaues کے تکنیکی نام سے مشہور ہوئے۔

نومبر 2002ء  میں سی آئی اے نے دبئی سے ایک  سعودی شہری کو گرفتار کر لیا۔ اس پر بھی الزام تھا کہ وہ القاعدہ کا سینئر لیڈر ہے۔  اس ملزم کو بھی تھائی لینڈ کے Cats Eye تفتیشی مرکز میں لا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2002ء میں سی آئی اے نے اپنے دونوں ہائی ویلیو قیدی Guantánamo Bay جیل منتقل کر دیئے اور Cats Eye مرکز بند کر دیا۔ تھائی تفتیشی مرکز میں Gina Haspel کی زیر قیادت تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ پھر دیگر مراکز میں پھیلتا چلا گیا۔  چونکہ اس تشدد کا حکمران طبقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا لہذا امریکی فوج اور سی آئی اے کے کارکن شیر ہو گئے۔  Iraq’s Abu Ghraib  Prison میں تو انتہا ہو گئی۔  وہاں امریکی مرد و زن فوجیوں نے عراقی قیدیوں کے ساتھ شرمناک اور ظالمانہ سلوک کیا۔ انہیں نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ بہت سے عراقی قیدی قتل بھی کر دیئے گئے۔ آخر اپریل 2004ء  میں امریکی چینل، سی بی ایس نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں افشا کیا کہ Iraq’s Abu Ghraib  Prison میں قیدیوں پر خوفناک مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔  یوں Iraq’s Abu Ghraib  Prison سکینڈل سامنے آیا جس نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا کو ہلا دیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکی حکومت سے مطالبہ کرنے لگیں کہ گرفتار شدگان کو دوران تفتیش تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے۔ امریکی عوام کی اکثریت نے بھی تشدد کی مخالفت کر دی۔

تشدد کے طریقوں کے خلاف بین الاقوامی احتجاج نے Gina Haspel کو پریشان کر دیا۔ وجہ یہی کہ  اس نے یہ طریقے وضع کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ Gina Haspel نے اپنی efficiency دکھانے کی خاطر ملزموں پر تشدد کرنے کی ویڈیوز تیار کرائی تھی۔ اب Gina Haspel کو احساس ہوا کہ اگر یہ ویڈیوز منظر عام پر آ گئیں، تو وہ بھی دنیا بھر میں معیوب اور ناپسندیدہ ہستی قرار پائے گی۔ Gina Haspel  چنانچہ کوشش کرنے لگی کہ ویڈیوز ضائع کر دی جائیں مگر سی آئی اے کے بڑوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔4 جون 2005ء کو مشہور امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کر کے انکشاف کیا کہ مشرقی یورپ میں سی آئی اے خفیہ تفتیشی مراکز (Black site) چلا رہی ہے۔ اس رپورٹ نے بھی امریکہ اور بیرون ممالک میں ہلچل مچا دی۔ ماہرین اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سی آئی اے نے یقیناً ان خفیہ تفتیشی مراکز میں قیدیوں پر تشدد کیا ہو گا۔ اب سی آئی اے عوامی تنقید اور احتجاج کا براہ راست نشانہ بن گئی۔ اس احتجاج نے Gina Haspel کے ہوش و حواس اڑا دیئے۔

تب تک Gina Haspel کا ایک قریبی ساتھی، Jose Rodriguez سی آئی اے کے شعبے، نیشنل کلینڈ سٹائن سروس( National Clandestine Service) کا سربراہ بن چکا تھا۔ اسی شعبے کے کارندے بیرون ممالک سی آئی اے کے لیے خفیہ مہمات انجام دیتے اور قتل و غارت تک کرتے ہیں۔ Jose Rodriguez کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ تھائی Cat’s Eye کی ویڈیوز تلف کر دے۔ چنانچہ جینا نے اس پر شدید دبائو ڈالا کہ ویڈیو ضائع کر دی جائیں۔ یوں اس کے گناہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتے اور منظر عام پر نہیں آتے۔ Jose Rodriguez اپنی ساتھی کے دبائو میں آ گیا۔  اس کے حکم پر 10 نومبر 2005ء  کو 92 Video tapes ضائع کر دی گئیں۔ ویڈیوز تلف کرنے کے حکم نامے پر Gina Haspel کے بھی دستخط تھے۔ یہ واضح رہے کہ اوائل 2005ء  میں وائٹ ہائوس کی قونصل (وکیل)، Harriet Miers نے سی آئی اے کے سربراہ وکلا کو ہدایت کی تھی کہ ایجنسی کے پاس اگر تشدد کی ویڈیوز موجود ہیں، تو وہ ضائع نہیں کی جائیں۔ تب ہی  Harriet Miers کو بتایا گیا کہ تھائی تفتیشی مرکز میں اتاری ویڈیوز محفوظ ہیں۔  لیکن بعد ازاں Jose Rodriguez اور Gina Haspel نے باہمی سازش سے ویڈیوز تلف کر دیں۔  مدعا Gina Haspel کو مقدمے بازی اور قانونی کارروائی سے محفوظ رکھنا تھا۔ لیکن وائٹ ہائوس کے وکلا کو مطلع کیے بغیر ویڈیوز کو برباد کرنا جرم قرار پایا۔

یہی وجہ ہے، جب صدر اوباما برسراقتدار آئے تو 2 جنوری 2008ء کو وائٹ ہائوس کے نئے قونصل، Michael Mixe نے اعلان کیا کہ تھائی تفتیشی مرکز کی ویڈیوز ضائع کرنے کے سکینڈل پر اب کرمنل تفتیش ہو گی۔ اس تفتیش کا سربراہ ریاست Connecticut کے ریاستی وکیل، John Henry Durham کو مقرر کیا گیا۔ مسٹر John Henry Durham تقریباً 3 سال تک کرمنل تفتیش کرتا رہا۔ نومبر 2010ء  اچانک اس نے پراسرار طور پر کیس بند کر دیا۔ Jose Rodriguez اور Gina Haspel پر کسی قسم کے الزامات نہیں لگائے گئے۔ ظاہر ہے، قومی مفاد کی خاطر سی آئی اے کے دونوں مجرموں کو سزا سے بچا لیا گیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔ Jose Rodriguez ستمبر 2007ء  میں سی آئی اے سے ریٹائر ہو گیا۔ Gina Haspel خفیہ ایجنسی سے وابستہ رہی۔ ماضی میں اس نے جو جرائم کیے تھے، وہ گویا معاف کر دیئے گئے۔

2017 میں اچانک وہ پھر نمایاں ہوئی، جب ماہ فروری میں نئے صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسے سی آئی اے کا ڈپٹی ڈائریکٹر بنا دیا۔ تب پہلی بار عوام الناس کو معلوم ہوا کہ Gina Haspel سی آئی اے کے لیے کام کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی بعض امریکی تنظیموں نے اس تقرری پر ٹرمپ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وجہ یہی کہ جینا ماضی میں قیدیوں پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کرنے کے سیکنڈل میں ملوث رہی تھی۔ چند ماہ بعد جرمنی میں انسانی حقوق کی مشہور تنظیم، European Center for Constitutional and Human Rights نے جرمن عدالت میں Gina Haspel کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ جرمن عدالت میں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے۔ گویا Gina Haspel ایک ملزمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر وہ جرمنی گئی، تو پولیس اسے گرفتار کر سکتی ہے۔ ملزمہ ہونے کے باوجود صدر ٹرمپ نے پچھلے ماہ Gina Haspel کو سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ قیدیوں پر تشدد کرنے کا حامی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح ملزم کے سینوں میں پوشیدہ راز اگل دیتے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے امریکی فوجیوں اور سیکیورٹی سے متعلق اپنی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سبھی اہلکاروں کو یہ پیغام دیا:

دنیا بھر میں کسی بھی انسان کو امریکا کا دشمن قرار دے کر اسے گرفتار کرو، اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنائو اور انسانیت کو پیروں تلے کچل ڈالو۔ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ قانون، انصاف اور اخلاقیات کی پروا مت کرو، ہم سب کچھ سنبھال لیں گے۔ تم جتنا زیادہ ظلم کرو گے، اتنے ہی بلند مناصب اور عہدوں پر پہنچ جائو گے۔

No comments.

Leave a Reply