ایران کے سفاک جیل نظام میں عورتوں سے ناروا سلوک

ایران کے سفاک جیل نظام میں عورتوں سے ناروا سلوک

ایران کے سفاک جیل نظام میں عورتوں سے ناروا سلوک

نیوز ٹائم

انیس سو اناسی  میں ایران میں انقلاب کے وقت ہزاروں عورتیں سڑکوں پر نکلی تھیں اور وہ بھی اپنے مردو ں کی طرح Mohammad Reza Pahlavi’s کی آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ لیکن جب Ayatollah Ruhollah Khomeiniنے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور گرد بیٹھ گئی،  تو آزادی کے لیے لڑنے والے بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے نئے سپریم لیڈر بھی وہی آمرانہ مطلق العنانیت پیش کر رہے تھے  جو Mohammad Reza Pahlavi’s کا خاصہ تھی اور پھر خواتین کے حقوق کو فوری طور پر محدود کر دیا گیا تھا۔  خواتین کو جب ایران کی نئی مذہبی قیادت سے نظر کا سامنا ہوا تو ان میں اکثریت نے حزب ِاختلاف کے گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔  وہ ایک مرتبہ پھر شاہراہوں پر تھیں اورAyatollah Ruhollah Khomeiniکے اقتدار کے خلاف مظاہرے کر رہی تھیں۔ چنانچہ Khomeini نظام نے بڑھتی ہوئی بے امنی اور گڑ بڑ پر قابو پانے کے لیے حکومت مخالفین کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا،  بہت سی خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر انھیں ایک سے ایک سفاک جیل میں گھمایا جانے لگا۔ ان ابتدائی ایام کے بعد سے ایرانی نظام نے سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی ناروا سلوک کیا ہے۔ جیلوں میں ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ لاتعداد زیر حراست افراد کو ان کی صنف سے قطع نظر جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے پیش نظر خواتین کارکنان کی اکثریت نے حکومت سے اختلاف کرنا ہی چھوڑ دیا  اور آزادی کے حصول کی اس جدوجہد میں ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے راہ فرار اختیار کر گئی۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کے جیلوں کے نظام میں خواتین سے ہونے والے ناروا سلوک سے نازیوں کے تاریک ایام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ تب جیلوں میں قیدیوں سے روزانہ ہر طرح کا انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا۔  ان سے ناروا سلوک کا ہر حربہ آزمایا جاتا تھا۔ جب Ayatollah Ruhollah Khomeiniنے اپنی مطلق العنان حکمرانی قائم کر لی تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے Mohammad Reza Pahlavi’s کے دور میں نافذ کردہ قوانین کو بھی بیک جنبشِ قلم منسوخ کر دیا تھا۔ Mohammad Reza Pahlavi’sنے ملک میں 1967ء اور 1973ء  میں خاندانی تحفظ کا قانون متعارف کرایا تھا۔  مذہبی قائدین کی اس نئی حکومت نے اس کو پہلوی کے جدیدیت پر مبنی نظریے سے تعبیر کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایسے قوانین کو منسوخ کر دیا تھا۔ Mohammad Reza Pahlavi’s نے جو قوانین متعارف کرائے تھے، ان میں ایک یہ تھا کہ لڑکیوں کی 15 سال سے کم عمر میں شادی نہیں کی جائے گی  لیکن Ruhollah Khomeini نے اس قانون میں ترمیم کر کے بچیوں کی شادی کی حد عمر 9 سال کر دی تھی۔ موجودہ جدید دور میں جب ایرانی خواتین کو انٹرنیٹ کے ذریعے بیرونی دنیا تک رسائی حاصل ہے  تو وہ یہ دیکھ سکتی ہیں کہ بیرونی دنیا میں تو خواتین کو ان سے کہیں زیادہ آزادیاں حاصل ہیں۔ ایران میں حکومت کی اتھارٹی کو کھلے عام چیلنج کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کر رہی ہیں۔  اگر Basij militiaکی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ان کے چہروں پر تیزاب نہیں بھی پھینکا جاتا ہے تو پھر انھیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے مدافعین:

خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی کارکنان کو اکثر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ بہت سی ایسی خواتین جنھوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے مہم چلائی تھی، انھیں انجام کار جیل جانا پڑا۔ ان میں سے بیشتر نے تو پرامن اجتماعات میں حصہ لیا، بعض نے پارکوں میں خاموش احتجاج کیا یا پھر وہ خاموش تماشائی بنی رہیں۔ ان میں سے بیشتر کو اگرچہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد رہا کر دیا جاتا رہا ہے لیکن بعض کو کوڑے مارنے یا قید کی سزا سنا دی گئی۔ ایران میں اس وقت خواتین کے حقوق کی صورت حال پست ترین سطح پر ہے۔ اس ملک میں کسی عورت کو اپنی عصمت ریزی کرنے والے درندے سے لڑنے کی کوشش پر پھانسی دی جا سکتی ہے۔ اس ملک کے جیل نظام میں آپ کو ظلم و زیادتی کی ہر قسم کی شکل ملے گی۔ عورتوں اور مردوں دونوں ہی سے جسمانی طور پر ناروا سلوک کیا جا سکتا ہے۔ ایران کی بدنام زمانہ انتظامیہ سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

جیل کے محافظوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں لٹانے والی بیشتر متاثرہ عورتوں کی آخری منزل پھانسی کا پھندا ہوتی ہے۔ ایسے واقعات کے عینی شاہدین کے بیانات بڑے چشم کشا ہیں۔ جنسی عصمت ریزی سے متعلق بیشتر واقعات متاثرین کی جیل کوٹھڑیوں کے ان ساتھیوں نے بیان کیے ہیں،  جو بچ جانے میں کامیاب ہو گئے اور اپنی جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد رہائی میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ ان میں سے بعض نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان ہوشربا تفصیلات سے آگاہ کیا۔

جب سے دہری شہریت کی حامل  Nazanin Zaghari-Ratcliffeایران کی بدنام زمانہ ایوین جیل میں قید ہیں، اس وقت سے یہ عقوبت خانہ اہل ِمغرب کی نظروں میں ہے۔ ایک عورت کے لیے Evin Prisonمیں جانا ہی ایک شرمناک اور اذیت ناک تجربہ ہو سکتا ہے۔ اس کا خوفناک ڈھانچا تہران میں البرز کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ اس کی بلند و بالا دیواریں ہیں اور ان کے اوپر خار دار تار لگائے گئے ہیں۔ اس کے درمیان میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واچ ٹاورز ہیں حالانکہ Evin Prisonہمہ وقت مسلح محافظوں کے پہرے میں ہوتی ہے۔ اس جیل میں قید عورتوں سے ایک نرمی یہ برتی جاتی ہے کہ انھیں قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہاں سے روزانہ ایسی قیدی عورتوں کو تفتیش کے لیے لے جایا جاتا ہے  اور اس عمل کے دوران میں اکثر تشدد کے حربے آزمائے جاتے ہیں، سوالات کے دوران میں گالم گلوچ کو ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔

موسم گرما کے انتہائی درجہ حرارت والے مہینوں میں ان جیلوں میں تشدد عام دنوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ قیدیوں سے کھچا کھچ بھری جیل کوٹھڑیوں میں کیڑے اور کاکروچ عام ہوتے ہیں اور وہ قیدیوں کی اذیت و تکالیف میں اور بھی اضافہ کر دیتے ہیں۔20 مربع میٹر کی ایک کوٹھڑی میں 28 تک قیدیوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے، حفظان صحت کا کچھ خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 200 تک قیدیوں کے لیے صرف ایک غسل خانہ ہوتا ہے۔ پھر ان قیدیوں کو تو سونے کے لیے بھی کہیں جگہ نہیں ملتی ہو گی۔

تشدد کی مختلف شکلیں:

ایران کے جیل نظام میں تشدد کی مختلف شکلیں ہیں۔ قیدیوں کو مارا پیٹا جا سکتا ہے، انھیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ وہ یوں کہ انھیں دوسرے قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے جعلی مناظر دکھائے جاتے ہیں، انھیں جگائے رکھا جاتا ہے۔ ان کے قید تنہائی کے دورانیے کو طویل کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات انھیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا جائے گا یا انھیں نقصان پہنچائے گا۔ انھیں خاندان کے افراد سے ملوایا نہیں جاتا، ٹیلی فون پر خاندان کے افراد سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بعض قیدیوں پر یخ ٹھنڈا پانی انڈیل دیا جاتا ہے یا پھر کڑی دھوپ میں انھیں کئی کئی گھنٹے کھڑا رکھا جاتا ہے۔ بیشتر قیدیوں کو حفظانِ صحت سے محروم رکھا جاتا ہے، انھیں غسل خانے ایسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ ایرانی جیل نظام میں جنسی تشدد تو ایک روایت بن چکا ہے۔ اس کو تشدد کے کسی بھی دوسرے حربے کی طرح قیدیوں پر آزمایا جاتا ہے۔جیلوں اور حراستی مراکز میں عورتوں پر یہ حربہ آزمایا جاتا ہے اور وہاں وہ اپنا دفاع بالکل بھی نہیں کر سکتی ہیں۔

ایران میں تو 13 سال کی عمر تک کی لڑکیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے۔انھیں ایک خوب صورت نام والے اقامتی یونٹوں میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ محافظوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ان یونٹوں کو دراصل  ریپ کیمپ یا پھر  عدم واپسی کی جگہ قرار دیا جاتا ہے۔یہاں ان لڑکیوں کو شرمناک طریقے سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔پھر انھیں پھندے پر لٹکا دیا جاتا اور جو کسی طرح بچ نکلتی ہیں تو وہ ذہنی مریض بن جاتی ہیں۔ جب عورتوں کو عصمت ریزی ایسے خوفناک تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کے بعد وہ پھانسی کے پھندے سے بھی بچ نکلتی ہیں تو وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے اس شرم ناک سلوک کے بارے میں مزید تشدد سے بچنے کے لیے کسی سے بات نہیں کرتی ہیں اور خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔ بعض اپنے خاندان کے افراد سے ناروا سلوک کی دھمکی پر خاموش رہتی ہیں۔ ان کی عصمت ریزی کے مرتکبین اکثر یہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے کچھ بولا تو ان کے خاندان سے بھی ایسا سلوک کیا جا سکتا ہے  یا پھر پورے خاندان ہی کو موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے۔ مرد کے برعکس جیل میں وقت گزارنے والی عورتوں کو رہائی کی صورت میں سماجی دبائو کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے  اور یہ دبائو یہی ہوتا ہے کہ وہ جیل میں قید رہ چکی ہوتی ہیں۔ یوں ان کی شہرت، عزت سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ جب ان کی عصمت ریزی کی خبر ان کے خاندان تک پہنچتی ہے تو بعض صورتوں میں خاندان کے افراد بھی غیرت کے نام پر انھیں موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ المختصر یہ کہ ایک مرتبہ جیل کی ہوا کھانے والی ایرانی عورت کے مصائب کبھی ختم نہیں ہوتے۔

No comments.

Leave a Reply