پاک، بھارت سابق انٹیلی جنس چیف آمنے سامنے

پاک، بھارت سابق انٹیلی جنس چیف جنرل اسد دورانی اور اے ایس دولت

پاک، بھارت سابق انٹیلی جنس چیف جنرل اسد دورانی اور اے ایس دولت

نیوز ٹائم

یہ مئی2015ء  کی بات ہے Usman Durrani ایک جرمن کمپنی میں ملازم تھے۔ وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ  Lt Gen (R) Asad Durani کے فرزند ہیں۔ اسی مہینے جرمن فرم نے کسی کام سے Usman Durrani کو بھارتی شہر Cochin بھجوایا جو ریاست Kerala ہ میں واقع ہے۔ Usman Durrani کو Cochin ہی سے واپس جانا تھا مگر جرمن کمپنی نے غلطی سے انہیں ایسی پرواز سے ٹکٹ دے دیا جسے ممبئی سے ہوتے ہوئے جرمنی جانا تھا۔ ممبئی میں بھارتی انتظامیہ نے Usman Durrani کو روک لیا کیونکہ وہ قانونی طور پر ممبئی آنے کے مجاز نہیں تھے۔ انہیں گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ تاہم بیٹا کسی نہ کسی طرح اپنے والد کو مطلع کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ جنرل (ر) اسد درانی بھارت کی خفیہ ایجنسی ”RAW” کے سابق سربراہ اے ایس (Amarjit Singh)  Dulat کو جانتے تھے۔ یہ صاحب سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت چلے گئے۔ بعد ازاں مختلف بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے منسلک رہے۔  1999 تا 2000ء انہیں ‘‘RAW’’ کا سربراہ بنایا گیا۔ سبکدوشی کے بعد مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں جنرل Asad Durrani اور A. S. Dulat کا آمنا سامنا ہوتا رہا اس لیے جان پہچان ہو گئی۔ یہی وجہ ہے Asad Durrani صاحب کا بیٹا ممبئی میں گرفتار ہوا تو انہوں نے A. S. Dulat ہی سے رابطہ کیا۔

A. S. Dulat صاحب نے ‘‘RAW’’ کے چیف، Rajinder Khanna اور بھارتی حکومت میں شامل دیگر اعلی سرکاری افسروں کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ Usman Durrani نے ویزے کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ جرمن کمپنی نے اسے غلط ٹکٹ دے دیا۔ یہ بھی بتایا کہ Usman Durrani کس شخصیت کا فرزند ہے۔ A. S. Dulat صاحب کی کوششوں سے آخر معاملہ رفع دفع ہوا اور Usman Durrani رہائی کے بعد واپس جرمنی چلے گئے۔ اس واقعے نے جنرل (ر) Asad Durrani اور A. S. Dulat کو مزید قریب کر دیا۔ انہوں نے پھر مل کر مسئلہ کشمیر پر ایک مقالمہ تحریر کیا۔ بعد ازاں انہیں خیال آیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جو تنازعات ہیں، ان پر گفتگو کی جائے تاکہ انہیں حل کیا جا سکے۔ چنانچہ وسط 2016ء  سے اس باہمی گفتگو کا آغاز ہوا۔ بات چیت کے مختلف مرحلے استنبول، بنکاک اور Kathmandu میں انجام پائے۔ اس گفتگو کے میزبان ایک بھارتی صحافی Aditya Sinha  تھے۔ وہی گفتگو کو الفاظ کا بھی روپ  دیتے رہے۔ پچھلے دنوں 2 سال کی نشستوں کا احوال ایک کتاب The Spy Chronicles RAW, ISI and the Illusion of Peace کی صورت بھارت میں شائع ہو گیا۔

یاد رہے General Asad Durani 1988ء میں  ملٹری انٹیلی جنس کے Director جنرل بنے۔  1990 تا 1991ء آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد  جرمنی اور سعودی عرب میں سفیر بنائے گئے۔ یہ ان معنوں میں منفرد کتاب ہے کہ دو متحارب خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں نے نازک و حساس موضوعات پر تبادلہ خیال کیا اور اپنی رائے سامنے لائے۔ تاہم کتاب کی اشاعت کے بعد اسی رائے کے باعث دونوں نے اپنے اپنے ممالک میں معتوب بھی ہوئے۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے قومی سلامتی اور بیانیے سے متصادم اور برخلاف باتیں کی ہیں۔  جی ایچ کیو نے تو اس ضمن میں لیفٹیننٹ جنرل General Asad Durani سے وضاحت بھی طلب کر لی کہ انھوں نے ملٹری کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔جنرل  General Asad Durani اور A. S. Dulat کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے حساس موضوعات اور تنازعات پر کھل کر اس لیے گفتگو کی تاکہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات دور کر کے قریب آ جائیں۔ اسی باہمی دوستی میں برصغیر پاک و ہند کے اربوں لوگوں کی بقا مضمر ہے۔

آئی ایس آئی کی کامیابیاں:

کتاب کے باب میں جنرل  درانی بتاتے ہیں: ایک عالمی کانفرنس میں ایک امریکی صحافی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک (بھارتی خفیہ ایجنسی) ”RAW”  کیسی ہے؟ تب میں آئی ایس آئی کا چیف تھا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی صحافی مجھ سے ”RAW”  کے خلاف باتیں کرانا چاہتا تھا  تاکہ بعد ازاں ”RAW” چیف سے ان پر رائے لے سکے۔ میں نے اس کی بری نیت پہچان کر بے پروا انداز میں کہا وہ بھی ہماری طرح اچھی خفیہ ایجنسی ہے۔  جنرل (ر) درانی  نے مزید بتایا  ایک یورپی ویب سائٹ، (https://www. smashinglists. com) مختلف شعبوں کے ٹاپ 10 کی فہرست مرتب کرتی ہے۔  10 سال قبل اس نے دنیا کی بہترین 10 خفیہ ایجنسیوں کی فہرست مرتب کی۔ اس میں سرفہرست آئی ایس آئی تھی۔  موساد سی آئی اے اور دیگر کو اس کے بعد رکھا گیا۔

آئی ایس آئی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے جنرل (ر) درانی نے بھارتی ساتھیوں کو بتایا  جب افغانستان میں سویت قبضے کے دوران افغان جہاد جاری تھا تو آئی ایس آئی مغرب کی بڑی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ شریک کار رہی تاکہ اسے کامیاب بنایا جا سکے۔  لیکن آئی ایس آئی نے کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اس کے کاموں میں دخل اندازی کر سکے۔  جب سرد جنگ ختم ہوئی تو بدلتے وقت کے تقاضے سامنے رکھ کر آئی ایس آئی نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔  میں اس امر کو بھی حیرت انگیز کامیابی قرار دیتا ہوں کہ آج تک آئی ایس آئی کا معمولی سا کارندہ بھی منحرف نہیں ہوا اور نہ ہی اسے کیمرے میں مقید کیا جا سکا۔

اس دوران Aditya Sinha نے جنرل (ر) درانی اور A.S Dulat سے سوال کیا کہ ان کے نزدیک آئی ایس آئی اور ”RAW”  کی سب سے بڑی ناکامیاں کیا ہیں؟ A.S Dulat گویا ہوئے: میرے نزدیک ”RAW”  کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ آج تک آئی ایس آئی کے کسی بندے کو منحرف نہیں کر سکی اور نہ ہی اپنا آلہ کار بنا پائی۔  آپ ذرا ماضی میں جایئے اور دیکھئے کہ سرد جنگ کے دوران (امریکی خفیہ ایجنسی) سی آئی اے کا بنیادی کام کیا تھا؟ اس کا اہم ترین کام یہ تھا کہ سویت یونین یا مشرقی یورپ سے کسی مشہور شخصیت کو منحرف کیا جائے۔ جب سی آئی اے کا کوئی کارندہ کسی منحرف کو ڈھونڈ لیتا تو پھر سارے کیریئر کے دوران وہ کوئی کام نہ کرتا۔ وجہ یہی کہ ایک بندے کو منحرف بنا کر وہ اپنا بنیادی کام انجام دے ڈالتا۔ لیکن ”RAW”  اس معاملے میں بالکل کامیاب نہیں ہو سکی۔Aditya Sinha نے سوال کیا: یہ تو ممکن ہے کہ آئی ایس آئی میں ”RAW”  کا جاسوس موجود ہو۔ A.S Dulat بولے: دشمن کی خفیہ ایجنسی میں کام کرتے کسی کارندے کو اپنا جاسوس بنانا منحرف کرنے سے آسان ہے۔ لیکن مجھے علم نہیں کہ آئی ایس آئی میں ”RAW”  کا کوئی جاسوس موجود رہا ہے یا نہیں۔  اس موقع پر جنرل (ر) درانی کہنے لگے:  جنگ 1965ء میں ہماری انٹیلی جنس بہت متحرک تھی۔ چنانچہ ہم یہ معلوم کرنے میں کامیاب رہے کہ بھارتی فوج کس قسم کی جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔  جنگ 1971ء میں آئی ایس آئی یہ اندازہ نہیں کر سکی کہ بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ میرے دور میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی۔ تب بھارتی فوج حرکت میں آ گئی۔ مگر آئی ایس آئی نے یہ درست اندازہ لگایا کہ بھارتی فوج جنگ لڑنے کی نیت نہیں رکھتی۔  یہ ہماری بڑی کامیابی تھی۔  میرے خیال میں ہماری ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی تو ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ وہ کہاں تک جائے گی۔  عام طور پر ایسی تحریکیں 6 ماہ یا ایک سال تک چلتی ہیں۔ مگر تحریک آزادی کشمیر کے متعلق آئی ایس آئی کا اندازہ درست ثابت نہ ہوا۔اسی باب میں جنرل (ر) درانی نے انکشاف کیا کہ ”RAW”  نے بھارت کے ایک ٹی وی چینل کو 25 ملین ڈالر دیئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ چینل پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کر سکے۔ تاہم A.S Dulat نے اس امر سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

Kulbhushan Jadhav کامعاملہ:

A.S.Dulatنے Kulbhushan Jadhav پر بھی اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی بحریہ کا یہ ریٹائرڈ افسر ‘‘RAW’’ کا ایجنٹ بن گیا تھا تو اس نے اپنا کام صحیح طرح ادا نہیں کیا۔یہ ایک ناکام آپریشن تھا جس سے ”RAW”  کو نقصان پہنچا۔ اس ضمن میں جنرل درانی نے بتایا کہ Kulbhushan Jadhav کو مارچ 2016ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔  اگلے مہینے پٹھان کوٹ پر حملہ ہو گیا۔ تب بھارتی حکومت کی سرتوڑ کوشش تھی کہ وہ یہ ثابت کر دے  دہشت گردوں کا تعلق پاک فوج سے تھا۔ تبھی کلبھوشن یادیو کو سامنے لایا گیا تاکہ دنیا والوں کو بتایا جا سکے کہ بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان اور سندھ میں شورش پھیلا رہا ہے اور دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے۔

Ajit Doval کا کردار:

دونوں تجربے کار Spy Master بھارت کے مشیر قومی سلامتی، Ajit Doval کی شخصیت اور اعمال کو بھی زیر بحث لائے۔ جنرل درانی کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ Ajit Doval نے پاکستان سے متعلق بھارتی حکومت کی پالیسی کو زیادہ تبدیل نہیں کیا۔ پالیسی پرانی والی ہی چلی آ رہی ہے۔ البتہ وہ زیادہ شدت پسند ہے۔ وہ ٹرمپ کی طرح بڑھ چڑھ کر بیان دیتا اور دشمنوں کو دھمکیوں سے نوازتا ہے۔ مختصر یہ کہ Ajit Doval وہی کہتا اور کرتا ہے جو اس کا Boss  (وزیر اعظم نریندر مودی) کرنے کو کہے۔ یعنی یہ بات کہ اپنی قوت کا مظاہرہ شدت سے کیا جائے اور بڑھ کر بولا جائے۔ جنرل (ر) درانی کا خیال ہے کہ Ajit Doval نے زیر زمین بھارتی خفیہ ایجنٹ کی حیثیت سے پاکستان میں جو سال گذارے وہ کچھ خوشگوار نہ تھے۔ اسی لیے Ajit Doval سمجھتا ہے کہ اس ملک سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے۔ A.S.Dulatنے Ajit Doval کو اپنا اچھا دوست اور مودی کا چیلا قرار دیا۔ انھوں نے کہا جہاں تک دوال کی صلاحیتوں کا تعلق ہے، وہ عمدہ آپریشنل اور عملی آدمی ہے۔ اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کسی پر اعتماد نہیں کرتا۔ اسی لیے اکثر تنہائی کا شکار رہتا ہے۔ اگرچہ دیکھا گیا ہے کہ جو مرد و زن انٹیلی جنس دنیا سے منسلک ہوں، وہ آسانی سے دوسروں پہ اعتماد نہیں کرتے۔ گویا ہر ملنے جلے والے پر شک کرنا ہر جاسوس کا مسئلہ ہے۔  بھارتی Spy Masters نے مذید کہا میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معاملے میں دوال شدت پسند نہیں، وہ بس لکیر کا فقیر ہے۔ جو مودی کہتا ہے، وہ اس پہ آنکھ بند کر کے عمل کر دیتا ہے۔ نیز Ajit Doval کو یقین ہے کہ مودی اب تک آنے والا بھارت کا بہترین حکمران ہے۔ اسی لیے وہ اسے پسند کرتا اور اپنے باس کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانا اپنا فرض سجھتا ہے۔ متحارب ممالک سے تعلق رکھنے والے دونوں انٹیلی جنس چیفس کی گفتگو پر مشتمل چشم کشا کتاب آنے والے دنوں میں ہلچل مچائے رکھے گی۔ اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس کتاب نے خصوصاً پاکستان کے قومی بیانیے کو نقصان پہنچایا یا اسے درست ڈگر پر لانے میں معاون ثابت ہوئی۔

No comments.

Leave a Reply