دوہزار اٹھارہ الیکشن کا ابتدائی جائزہ

پاکستان میں جنرل الیکشن 2018 25 جون کو ہوں گے

پاکستان میں جنرل الیکشن 2018 25 جون کو ہوں گے

نیوز ٹائم

پاکستان میں جنرل الیکشن کا بخار چڑھنا شروع ہو چکا ہے،  مرکز اور صوبوں میں عبوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں، مرکز اور ایک صوبے میں جج حضرات Caretaker وزیر اعظم اور وزیر اعلی بنا دیئے گئے ہیں، سندھ میں ایک بیورو کریٹ، بلوچستان میں ایک trader اور پنجاب میں ایک دانشور Prof. Dr. Hasan Askari کو Caretaker وزیر اعلی کے عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے۔  عجیب بات یہ ہے کہ دانشور اور ایک استاد کو سخت تنقید کا سامنا ہے، اگرچہ ان کا مزاج عاجزانہ اور ایک منصف مزاج شخصیت کے مالک ہیں،  ہر دلعزیز ہیں مگر مسلم لیگ (ن) نے ان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، اگرچہ ساری حکومتوں پر تنقید ہوتی رہی ہے، جہاں جہاں جس پارٹی کی حکومت تھی وہاں وہاں وہ پارٹی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے،  مثال کے طور پر سندھ میں پیپلز پارٹی پر تنقید کے تیروں کی بارش ہو رہی ہے  مگر وہ اپنے آپ کو محفوظ اور مطمئن پاتی ہے کیونکہ وہاں جو بیوروکریٹ Caretaker وزیر اعلی مقرر ہوا، وہ حکومتی اور اپوزیشن دونوں کا پسندیدہ نمائندہ ہے وہ دونوں کو خوش رکھے گا، اس لئے ان پر بھی سخت تنقید ہو رہی ہے مگر وہ قانون کے عین مطابق Caretaker وزیر اعلی بنے ہیں  اور کسی نے ان کے وزیر اعلی بننے کے معاملے میں مداخلت نہیں کی، اسی طرح مرکز میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے جس کو Caretaker وزیر اعظم بنایا ان کو ذرا کم تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔

مگر جہاں فیصلہ کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن میں آیا تو ان کے نامزد کردہ فرد پر تنقید ہوئی یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اپوزیشن اور حکمراں جماعت کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکیں  تو الیکشن کمیشن ان ناموں میں سے جو کہ اپوزیشن اور حکمران نے دیئے ہوتے ہیں ان میں کسی ایک کو جس کو الیکشن کمیشن بہتر سمجھتا ہے  Caretaker وزیر اعلی بنا دیتا ہے۔ چاہے وہ حکمراں جماعت سے ہو یا اپوزیشن کا دیا ہوا نمائندہ ہو جیسے خیبر پختونخوا میں حکمراں مخالف جماعت کا نامزد کردہ وزیر اعلی بنا دیا گیا اور پنجاب میں بھی اپوزیشن کے دیئے گئے شخص کو Caretaker وزیر اعلی بنا دیا گیا جو اگر دیکھا جائے تو ایک اچھا انتخاب ہے۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کی تنقید کا جواز نہیں بنتا، ویسے بھی ایک جج اور ایک دانشور کو حکمرانی کا تجربہ نہیں ہوتا  اس لئے بھی ان سے الیکشن کے نتائج اور ووٹنگ میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اگر ان میں کوئی ایک بھی بیوروکریسی، پولیس، خودمختار اور پٹواری کو نہیں سنبھال سکا  تو کسی بھی علاقہ کا بااثر شخص اپنا کام دکھا جائے گا  اور جن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جیتنے والے امیدوار ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا جہاں اپنے حلقے میں اثر و رسوخ ہے وہاں وہ بیورو کریسی اور انتخابی عملے کا بندوبست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ ووٹروں کو جمع کرنے اور اپنے ووٹوں کو انتخابی ڈبے میں ڈلوانے کا تجربہ بھی ان کے پاس ہوتا ہے، اب ہو یہ رہا ہے کہ تقریباً 20 سے 50 ایسے اشخاص جو پہلے منتخب ہو چکے ہیں  اور اب بھی منتخب ہونے کی بھرپور توقع رکھتے ہیں وہ PTI میں شامل ہو چکے ہیں وہ اگر جیت جاتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کی اکثریت کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا اور اگر پنجاب میں یہی بیوروکریسی رہی تو مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کے امکانات روشن رہیں گے  اور اگر دانشور Caretaker وزیر اعلی نے بیوروکریسی تبدیل کر لی اور ان کو غیر جانبدار بنا دیا تو پھر مسلم لیگ (ن) کو دھچکا لگ جائے گا، کیونکہ 2013ء کے الیکشن میں بیوروکریسی ان سے ہدایت لیتی تھی، اس کا اعتراف اس وقت کے پنجاب کے Caretaker وزیر اعلی Najam Sethi نے برملا کیا  کہ ان کے دور میں ان کی تمام کوششوں کے باوجود وہ بیوروکریسی کو نیوٹرل نہیں کر سکے۔

سوال یہ ہے کہ Prof. Dr. Hasan Askari صاحب کس قدر صلاحیت کے مالک ہیں کہ وہ بیوروکریسی جو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پچھلے 30 سال سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے وہ کیونکہ  اپنا انداز ِفکر تبدیل کر سکتی ہے اور کہاں تک Prof. Dr. Hasan Askari انقلابی اقدامات اٹھانے کے اہل ہیں، دانشور حضرات ویسے بھی حکمرانی کا تجربہ نہ رکھنے کہ وجہ سے گنجائش کے دائرہ میں رہتے ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں گے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اتنی پریشان ہے، البتہ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ان کو کہیں سے رہنمائی حاصل ہو خود ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد ایسی ہو سکتی ہے جو ان کی مدد کو آئے اور بتائے کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے اور کس بیوروکریٹ کا رخ کس طرف ہے تاہم وقت بہت کم ہے زیادہ تبدیلیاں ویسے بھی الیکشن رول کے تحت نہیں کی جا سکتیں۔

سندھ میں پی پی پی کو ایک بنی بنائی بیوروکریسی دستیاب ہے، بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ ان کو مخالفت کا سامنا تو ہے  مگر ان کو فی الحال خطرے کے دائرہ سے باہر دیکھا جا رہا ہے اور سیاسی گروہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ PTI، پی پی پی اور پھر مسلم لیگ (ن) میں سے نمبرز گیم میں تیسری جماعت ہو گی، ویسے لگتا ہے کہ کسی پارٹی کی بھی اکثریت نہ آئے اور لٹکی ہوئی پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آ جائے  تاہم MMA بھی چوتھے یا تیسرے پر کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس طرح جو پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آئے گی اس کی وجہ سے کوئی اتحاد ہی حکومت بنا سکے۔ اب ایسے اتحاد بنانے کی صلاحیت ان پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف میں تو نہیں دکھائی دیتی، شاید وہ اس صلاحیت کا اظہار ازخود نہ کر سکیں۔

عمران خان کو ان کی سابقہ بیوی Riham Khan شاید اپنی کتاب سے نقصان پہنچا دے، مگر لگتا تو یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب عمران خان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے کہ جتنا کہ ان کا خیال ہے کیونکہ حالات و واقعات اس طرف جا رہے ہیں جو عمران خان کے خلاف کسی عمل کو دبا دیں، اگرچہ ان کے جملے شدید ہیں ان کے الزامات شائد Riham Khan کو زیادہ نقصان پہنچا دیں یا کسی مشکل میں مبتلا کر دیں،

سندھ کے شہری علاقے کی جماعت MQM کا اب بھی یہ خیال ہے کہ لوگ پتنگ کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اگرچہ پی پی پی اور Jamaat-e-Islami ان کے ووٹ بینک میں دراڑ ضرور ڈالیں گی، خیبرپختونخوا میں کیا صورتِ حال بنتی ہے وہ دیکھنے کی بات ہے کہ وہاں Caretaker وزیر اعلی ایک جج ہیں اور وہاں PTIکی مخالفت میں سب لوگ یکجا ہو گئے تو PTI کو شکست ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں اگرچہ سابق وزیر اعلی کا دعوی ہے کہ وہ اکثریت حاصل کر لیں گے مگر وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کی بات ہے۔ البتہ Jamiat Ulama Islam وہاں اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتی ہے  اور کوئی بعید نہیں کہ وہ بلوچستان یا خیبرپختونخوا میں سے کسی ایک صوبے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا ڈالے۔ بہرحال سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، یہ وقت ہی بتائے گا کہ صورتِ حال کیا بنتی ہے  الیکشن کی گہما گہمی ابھی شروع نہیں ہوئی اور معرکہ ابھی دور ہے۔

No comments.

Leave a Reply