ڈاکٹر عافیہ کو امریکی جیل میں تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے : خفیہ رپورٹ

امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتکار عائشہ فاروقی نے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے بعد ایک رپورٹ تیار کی ہے

امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتکار عائشہ فاروقی نے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے بعد ایک رپورٹ تیار کی ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتکار عائشہ فاروقی نے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے بعد ایک رپورٹ تیار کی ہے،  جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی جیل میں تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ جیل میں عافیہ پر جسمانی و ذہنی ٹارچر کی رپورٹ امریکی مظالم کی معمولی سی جھلک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عافیہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں ان کے بچوں، والدہ اور اہلخانہ کے حوالے سے غلط  معلومات فراہم کر کے ذہنی اذیت بھی دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی حکومت پاکستان نے عافیہ کی رہائی کے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکہ میں قانونی جنگ کے دوران اپنا سب کچھ فروخت کر دیا اور وکلا کو کروڑوں روپے فیس ادا کی گئی ہے۔ڈاکٹر فوزیہ کے بقول رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جیل کا مرد  عملہ عافیہ پر پیشاب کرتا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ نے اپنی والدہ کو لکھے گئے مختصر خط میں کہا ہے کہ جیل سب rapist ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو جسمانی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں استعمال کے لیے سیوریج کا پانی دیا جاتا  ہے۔ پاکستانی سفارت کار کی منظرعام پر آنے والی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو ڈاکٹر عافیہ پر جسمانی تشدد او زیادتی کے حوالے سے انکوائری کرنے کے لیے لکھا جائے  اور عافیہ کے سیل میں جیل کے مرد اہلکاروں کا داخلہ بند کرایا جائے، جو اس کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ایسا قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر عافیہ اپنی سزا پاکستان میں پوری کرے، تاکہ کم از کم وہ محفوظ رہ سکے اور اپنی والدہ اور بچوں سے ملاقات کر سکے۔ وہ گزشتہ 8 سال سے اپنے بچوں سے نہیں ملی ہے۔ عائشہ فاروقی نے لکھا ہے کہ عافیہ صدیقی سے ان کی دو گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ اس دوران وہ نروس اور جیل کے عملے سے خوف زدہ نظر آئی۔ وہ مسلمل جسمانی تشدد اور زیادتی سے ہراساں تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے انتہائی خوفزدہ ہونے کے باوجود جیل میں اپنے نگران کی جانب سے بار بار زیادتی کا نشانہ بنانے، مذاق اڑانے، ذاتی اشیا  چھیننے اور جیل عملے کی جانب سے اس پر پیشاب کئے جانے کی شکایات کی ہیں۔ عافیہ سے ملاقات میں محسوس ہوا کہ انہیں کوئی نشہ بھی دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بار بار مدہوش ہو جاتی تھیں۔ عائشہ فاروقی نے لکھا ہے کہ اب سب حالات کے باوجود عافیہ صدیقی پرامید تھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور پاکستانی عوام کی دعائوں سے جلد رہا ہو جائیں گی۔

دستیاب معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو امریکی جیل Texas, Federal Medical Center in Carswell میں رکھا گیا ہے، جو دنیا کی بدنام زمامہ جیل ہے۔ یہاں ایسے بدنام ترین اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے جو قیدیوں پر بدترین تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنانے کی شہت رکھتے ہیں۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ٹیکساس کی یہ جیل دنیا کی تیسری بدنام ترین جیل ہے، جہاں کھلے عام انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی جانب سے پاکستانی سفارتکار کے ہاتھوں اپنی والدہ کو بھیجے گئے خط کی کاپی ملی ہے، جس میں انہوں لکھا ہے  کہ ۔۔۔۔ عافیہ کا پیغام اس کی امی کے لیے ۔ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ جسمانی نہ ذہنی۔ یہاں تقریباً سارے مرد اور عورتیں rapist (زناکار)  ہیں۔ میں دین نہیں چھوڑا ہے۔ جتنا ممکن ہے میرے لیے انتا اسسلام پہ چلنے کی پوری کوشش کرتی ہوں اور اللہ اس کا گواہ ہے۔

پاکستانی سفارتکار کی رپورٹ کے حوالے سے گفتگو کے لیے عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں ڈاکٹر عافیہ پر تشدد کی جو روداد بیان کی گئی، وہ امریکی جیل میں عافیہ پر معمولی سی جھلک ہے۔ بکہ درحقیقت عافیہ پر بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ عافیہ جیل اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہے اور یقینی طور پر اس نے انتہائی محتاط انداز میں پاکستانی سفارتکار سے بات کی ہو گئی اور خوف کی وجہ سے زیادہ تفصیلات نہں بتائی ہوں گی۔ ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے تشدد اس سے کہیں زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ جیل کا عملہ عافیہ کو غلط معلومات فراہم کرتا ہے اور جو جذباتی طور پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بات غلط  لہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو اپنے وکلا Kathy اور Steven  پر اعتماد نہیں ہے اور وہ Tina Faster کو وکیل کرنا چاہتی ہیں، جو ان کے دو بچوں کو افغانستان سے لائی تھی۔ ڈاکٹر فوزیہ کے بقول یہ درست ہے کہ Tina Faster عافیہ کے بچوں کو واپس لائی تھی۔ لیکن اس کے بعد اس نے کچھ بھی کیا اور فیس کی مدد میں 40ہزار ڈالر ٹوکن منی لی تھی۔ پھر جب وہ عافیہ کے لیے کام کر رہی تھی تو 3 ہزار ڈالر فی گھنٹہ چارج کرتی تھی۔ ان ادائیگیوں کے لیے ہمارے خاندان نے اپنی تمام جائیداد فروخت کر دی اور بینک بیلنس ختم کر دیا۔اب ہمارے پاس کچھ نہیں بچا۔ گزر بسر صرف میری پریکٹس سے ہوتی ہے۔ جبکہ Kathy اور Steven نے ڈاکٹر عافیہ کا کیس انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لیا تھا۔انہوں نے ہم سے کوئی ٹوکن منی چارج نہیں کی، بلکہ وہ جب ڈاکٹر عافیہ کے لیے کام کر رہے ہوتے تو صرف اپنے وقت اور اخراجات کی مد میں 100 ڈالر فی گھنٹہ چارج کرتے تھے۔ ان سے ہم نے اہم کام لیا تھا، وہ یہ تھا کہ 2017ء میں جب اوباما ہائوس چھوڑ رہے تھے اور عام معافی دی جا رہی تھی تو اس موقع پر ان سے ڈاکٹر عافیہ کی معافی کے لیے دستاویزات تیار کرائی تھیں۔ یہ کاغذات وائٹ ہائوس بھی پہنچا دیئے گئے تھے۔ لیکن اس کے لیے ضرروی ت ھا کہ حکومت پاکستان باضابطہ طور پر اوباما سے ڈاکٹر عافیہ کے لیے معافی کی درخواست کرتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ہماری محنت اور پیسہ ضائع ہو گیا۔ ڈاکٹر فوزیہ نے بتیا کہ حکومت پاکستان نے یوسف رضا گیلانی کے دور میں جن دو وکلا کو ملین ڈاکر کی ادائیگیاں کی تھیِں، انہوں نے کبھی ڈاکٹر عافیہ کا کیس نہیں لرا اور ڈاکٹر عافیہ کی صفائی پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے تو صرف عدالت میں ڈاکٹر عافیہ کو کراچی سے اغوا کرنے اور پھر افغانستان کی بگرام جیل میں خفیہ طور پر 5 فسال تک قید رکھنے کے معاملے کو ڈیل کیا تھا۔ وہ کبھی بھی ڈاکٹر عافیہ کی خفیہ قید کے پانچ سال کا معاملہ جس کے ثبوت موجود ہیں، عدالت کے سامنے نہیں لائے،  بلکہ انہوں نے امریکہ میں موجود اس وقت کے سفیر حسین حقانی کی ایما پر معاملے پر مٹی ڈال دی تھی۔ اگر یہ معاملہ عدالت کے سامنے آتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ ہو چکا ہے کہ پہلے ڈاکٹر عافیہ کا کیس ایک افریقن امریکن کی عدالت میں چلا تھا اور اس جج نے کاغذات دیکھنے کے بعد پہلی ہی پیشی میں کہہ دیا تھا کہ یہ کیسا کیس ہے اور یہ کیا بکواس ہو رہا ہے۔ اس خاتون کو فی الفور اس کے اپنے ملک میں واپس بھیجا جائے۔ جس کے بعد امریکہ کے شعبہ انصاف نے کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کیا اور اس میں بھی پاکستان کی جانب سے جن وکلا کو خدمات حاصل کی گئیں، وہ کیس بگاڑنے میں ملوث تھے۔ اس طرح سب نے مل کر ڈاکٹر عافیہ کو سزا دلائی اور اصل معاملے کو ختم کر دیا۔

جنیوا کنونش کی شق 36 اور تین کے تحت ڈاکٹر عافیہ کو کسی بھی صورت میں سزا نہیں ہو سکتی تھی۔ مگر وکلا کبھی بھی معاملہ عدالت میں نہیں لائے اور جب وکلا سے رابطہ کیا جاتا تو وہ بات نہیں سنتے تھے۔ ہمیں کہا جاتا تھا کہ حکومت پاکستان اور پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے ان کی خدمات حاصل کی ہیں اور وہ ہماری خدمات سے مطمئن ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے امکانات اب بھی بہت روشن ہیں۔ مگر اس کے لیے حکومت اور سیاستدانوں کو جرات کا مظاہرہ کر کے ڈاکٹر عافیہ کا کیس لڑنا ہو گا اور اس سے حقیقی معنوں میں انصاف دلانا ہو گا۔ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کے حقوق کا تحفظ کرے اور اس کی خیریت معلوم کرنے کے علاوہ اس کی واپسی کے اقدامت کئے جائیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے حکومت سے جواب طلب کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کے حوالے سے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا، مگر اتنا طے ہے کہ امریکہ سمیت تمام ممالک جو اقوام متحدہ کے ممبر ہیں، ان پر جنیوا کنونشن کے تحت اور عالمی انسانی حقوق کی پاسداری لازمی ہے۔ اگر کسی معاملے میں یہ نہیں ہو رہا ہے تو متعلقہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عملدرآمد کروائے۔

No comments.

Leave a Reply