امریکا اور عالمی تجارتی جنگ

امریکا اور چین ایک دوسرے پر 150 ارب ڈالر مالیت کے محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں

امریکا اور چین ایک دوسرے پر 150 ارب ڈالر مالیت کے محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں

نیوز ٹائم

امریکا سے تجارتی تنازع کے بعد چین کے صدر Xi Jinpingنے خود غرض اور محدود تجارتی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے پابندیوں سے آزاد عالمی معیشت بنانے پر زور دیا ہے۔  چین کے ساحلی شہر Dacheng  میں علاقائی سیکورٹی سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران  چین کے صدر نے امریکا کی جانب سے عاید کی گئی تجارتی پابندیوں کا براہ راست ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے امریکی اقدام پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم خودغرض، محدود اور بند پالیسوں کو مسترد کرتے ہیں۔  عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کو برقرار رکھا جائے اور ملٹی لیٹرل تجارتی نظام کی حمایت کرتے ہوئے عالمی معیشت کو ایسا بنایا جائے جہاں سب کو آزادی ہو۔  امریکا اور چین ایک دوسرے پر 150 ارب ڈالر مالیت کے محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں  اور اس حوالے سے چین نے عملی طور پر امریکا کی جانب سے اضافی ٹیکس کے جواب میں امریکی مصنوعات پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات کے لیے اپنے دروازے کھولے کیونکہ امریکا اور چین کے مابین تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ چینی صدر نے دنیا کی 7 بڑی معیشتوں G-7 کے سربراہ اجلاس میں صدر ٹرمپ نے مشترکہ اعلامیہ سے لاتعلقی کا اظہار کے فورا بعد یہ اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے واشنگٹن اور اس کے قریبی اتحادیوں کے تعلقات پر اثر پڑے گا۔ ایس سی او  میٹنگ (شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس)  سے خطاب میں چین کے صدر نے کہا  کہ ہمیں سرد جنگوں اور گروہوں کی لڑائی کی سوچ سے باہر نکلنا ہے اور ہم دوسروں کی قیمت پر اپنی سیکورٹی کے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔ چینی صدر نے ایس سی او ممالک میں فریم ورک بنانے کے لیے 4 ارب 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے کی پیشکش بھی کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001ء میں رکھی گئی تاکہ چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک میں سیکورٹی خدشات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ گزشتہ سال ایس سی او میں پاکستان اور ایران کو بھی شامل کیا گیا اور توقع ہے کہ آئندہ سال تک ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن جائے گا۔ ادھر ایک مرتبہ پھر چین نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے تجارتی پابندیوں اور نئے درآمدی محصولات کو نافذ کرنے پر اصرار کیا  تو دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی مذاکرات کا کوئی فائدہ ہو گا نہ کسی قسم کا کوئی تجارتی معاہدہ ہو سکے گا۔

دوسری جانب G-7 ممالک نے بھی امریکا کی جانب سے المونیم اور اسٹیل پر درآمدی محصولات میں اضافی ڈیوٹی کے فیصلوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔  کینیڈا میں یورپی اتحادی ملکوں کے وزرائے خزانہ کی سہ روزہ کانفرنس نہ صرف بے نتیجہ ختم ہو گئی بلکہ ٹرمپ نے تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے کینیڈین وزیر اعظم کو بددیانت قرار دے دیا۔ امریکی وزیر خارجہ اتحادی ممالک کے اضطراب کو ختم نہ کر سکے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق اس صورت حال سے عالمی تجارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

واشنگٹن نے حال ہی میں جب میکسیکو، کینیڈا اور یورپی یونین پر اضافی ڈیوٹی عائد کی تو G-7 ممالک نے سربراہ اجلاس میں فیصلہ کن اقدامات کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا لیکن G-7کے ممالک ٹرمپ کو کسی بھی نتیجے پر قائل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ادھر تجارتی جنگ کے حوالے سے ٹرمپ کی طرف سے امریکا میں درآمد کی جانے والی واشنگ مشینوں اور شمسی توانائی کے پینلز پر ڈیوٹی لگانے کی حمایت سے سب سے زیادہ متاثر چین اور جنوبی کوریا ہوں گے۔  اس فیصلے پر چین کے جریدے گلوبل ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ سے تجارتی جنگ کے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلیں گے اور چین اس کا بھرپور جواب دے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2016ء  میں 578 ارب ڈالر اور 2017ء میں 632 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس تجارت سے ایک ملین سے زائد امریکی شہریوں کا روز گار وابستہ ہے اور چین اس سے بخوبی واقف ہے۔ اس کے ساتھ سیکورٹی کے حوالے سے بھی امریکا، چین کو دھمکی دے چکا ہے  کہ وہ تنازع بحیرہ جنوبی چین میں میزائل نصب کر کے اپنے پڑوسی ممالک کو دھمکا رہا ہے۔  امریکا نے مطالبہ نہ ماننے پر کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ بحیرہ جنوبی چین میں فوج کی تعیناتی چین کی نیشنل ڈیفنس پالیسی کا حصہ ہے۔ فوج اور اسلحہ اس جگہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی وہاں قبضہ نہ کرے۔ جب تک یہ چین کا علاقہ ہے تب تک وہ وہاں فوج تعینات کر سکتا ہے اور اسلحہ پہنچا سکتا ہے،  اگر کوئی ملک اس بارے میں شور مچائے تو چین کی نظر میں یہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا اور چین کے درمیان معاملات بڑھتے بڑھتے دھمکیوں پر آ گئے ہیں جبکہ امریکی اتحادی ملکوں کے ساتھ بھی تجارتی معاملات پر کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

واحد سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا امریکا پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور مستقبل میں اپنے سامنے چین کو حریف سمجھتا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکا، چین تنازعات خاصے سنگین ہیں۔ ٹرمپ نے امریکا پہلے کے اصول کے تحت اپنے اتحادی ملکوں سے بھی تجارتی جنگ شروع کر دی ہے  اور کسی بھی مخالفت کی پروا کیے بغیر اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ایران کے ساتھ جس طے شدہ ایٹمی معاہدے کو علی الاعلان توڑ ڈالا جس سے یورپی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور وہاں پہلی بار پٹرول مہنگا ہو گیا۔ امریکی پالیسی سازوں کو بخوبی ادراک ہے کہ چین کے ساتھ تصادم انہیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے کیونکہ چین، امریکا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ چین اسی بنا پر امریکی دھمکیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

No comments.

Leave a Reply