اردگان کی کامیابی پر اسرائیل اور ایران خوش کیوں؟

اب اردگان کے پاس ایگزیکٹو صدر کی نئی طاقت ہو گی کیونکہ ترکی میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے

اب اردگان کے پاس ایگزیکٹو صدر کی نئی طاقت ہو گی کیونکہ ترکی میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے

نیوز ٹائم

ایران، ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے کے علاقائی حریف ہیں اور برسوں سے ان کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ ترکی کی ایک عرصے سے رہنمائی کرنے والے لیڈر رجب طیب اردگان کی تہران اور یروشلم کی انتظامیہ سے اچھے سلوک کے سبب ان ممالک کے درمیان سفارتی بحران اور علاقائی عدم استحکام نظر آیا ہے۔ دونوں ممالک کے رشتے، بطور خاص اردگان اور عمومی طور پر ترکی انتظامیہ سے اچھے نہیں رہے ہیں۔ لیکن اب اردگان کے پاس ایگزیکٹو صدر کی نئی طاقت ہو گی کیونکہ ترکی میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں اسرائیل اور ایران دونوں خوش ہو سکتے ہیں جبکہ اردگان جنھیں  نیا سلطان کہا جا رہا ہے  انھیں پانچ سال کی نئی مدت ملی ہے؟

رواں سال یکم اپریل کو صدر اردگان نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کو دہشت گرد کہا تھا  حال ہی میں اردگان نے اسرائیل کو زمین پر قبضہ کرنے والا دہشت گرد ملک کہا تھا۔ ترکی نے اسرائیل کی فلسطینوں کے ساتھ ناروا سلوک برتنے کی سخت مذمت کی تھی۔  یہاں تک کہ غزہ میں گذشتہ مئی میں ہونے والے خونی مظاہروں کے بعد اس نے اسرائیلی سفیر کو انقرہ سے نکال دیا تھا۔ لیکن علاقائی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کے رشتوں کے افق پر نرمی نظر آ رہی ہے۔  Suntrust نظریہ کے حامل اخبار attitude kernot کے Sumdar pari کا کہنا ہے کہ اردگان کے سخت رویے کے باوجود یہ واضح ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب وہ رفتہ رفتہ لگام ڈھیلی چھوڑیں گے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اجازت دیں گے۔ ترکی اور اسرائیل ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے اہم رہے ہیں۔ درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت معمول پر رہی ہے اور حالیہ مہینوں کے درمیان ان کے معاشی رشتے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ ترکی میں اسرائیلی مصنوعات کا سرکاری طور پر بائیکاٹ نہیں ہوا ہے اور کسی بھی تجارتی معاہدے کو منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔ ترکی کے صدر ہمیشہ سے اسرائیل کے ناقد اور فلسطینی رہنما محمود عباس کے حامی رہے ہیں۔

ترکی کی سیاست میں اسرائیل کے ساتھ انتہائی اقدام پر بحث ہوئی ہے اور اردگان کے اہم حریف سی ایچ پی کے Muharrem İnce نے ان کی وکالت کی ہے۔ ایک دوسری پارٹی کرد نواز ایچ ڈی پی پارٹی نے تو یہاں تک کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تمام معاشی تعلقات کو توڑ لینا چاہیے۔  خیال رہے کہ اس موقف کی سی ایچ پی بھی حمایت کرتی ہے۔ اپنے سیاسی حریف کے برخلاف اردگان اور ان کی اے کے پارٹی تجارتی محاذ پر نسبتاً کم اسرائیل مخالف رہی ہے۔ ترکی کے انتخابات سے قبل اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے اس بات کی جانب اشارہ کیا  کہ ترکی میں سفارتی بحران کے ابتدا کے بعد اے کے پی نے پارلیمان میں ایک قرارداد کو نامنظور کر دیا جس میں یہودی ریاست کے ساتھ تمام پرانے معاہدے کو توڑنے اور معاشی تعلقات کو ختم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اردگان اور اے کے پی نے اسرائیل کے خلاف شعلہ بیانیوں کا استعمال کیا ہے  لیکن اسرائیل کو پتہ ہے کہ وہ دونوں ممالک کے معاشی رابطے کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔ دریں اثنا غرب اردن میں فلسطینی صدر محمود عباس نے صدر اردگان کو ان کی جیت پر مبارکباد دی ہے  اور ترکی کے لیے مزید کامیابیوں، ترقیات اور استحکام کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

No comments.

Leave a Reply