پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمنام جماعتوں کا پس منظر

پاکستان کے سیاسی پس منظر میں سیاسی جماعتوں کی پزیرائی اور مقبولیت کی بعد ان کی ہمنام جماعتوں کے بننے کا رجحان کافی پرانا ہے

پاکستان کے سیاسی پس منظر میں سیاسی جماعتوں کی پزیرائی اور مقبولیت کی بعد ان کی ہمنام جماعتوں کے بننے کا رجحان کافی پرانا ہے

نیوز ٹائم

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور Jamiat Ulema-e Islam کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے ہی ہمنام جماعتیں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ عمومی طور پر کسی بڑی جماعت کے اندر اختلافات کے بعد نئی جماعتوں کا وجود اسی جماعت کے نام پر عمل میں آتا ہے اور ایسا عام انتخابات کے موقع پر ہی ہوتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی پس منظر میں سیاسی جماعتوں کی پزیرائی اور مقبولیت کی بعد ان کی ہمنام جماعتوں کے بننے کا رجحان کافی پرانا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ سے نالاں لوگوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے بانی میاں نواز شریف اور موجودہ صدر میاں شہباز شریف ہیں،  پاکستان مسلم لیگ (ق) جس کے صدر چودھری شجاعت حسین ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ف) جس کے صدر Sibghatullah Shah Pir Pagaro ہیں، Awami Muslim League جس کے صدر شیخ رشید احمد ہیں، پاکستان مسلم لیگ (J) جس کے صدر محمد اقبال ڈار ہیں،  پاکستان مسلم لیگ شیر بنگال جس کے صدر Dr Alauddin ، پاکستان مسلم لیگ کونسل جس کے صدر Naeem Hussain Chatha ہیں،  پاکستان مسلم لیگ آرگنائزیشن جس کی چیئر پرسن Fatima Lubna Hussain ہیں، پاکستان مسلم لیگ (Z) جس کے صدر Ejaz ul Haq ہیں  اور پاکستان نیشنل مسلم لیگ جس کی چیئر پرسن Farkhanda Amjad Ali Warraich ہیں بنائیں۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والے لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو جس کی چیئرپرسن Zulfiqar Ali Bhutto کی  daughter in law Ghinwa Bhuttoہیں، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین جس کے صدر آصف علی زرداری ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز جس کے صدر ڈاکٹر صفدر علی عباسی ہیں، کے نام سے جماعتیں بنائیں۔ Jamiat Ulema-e Islam کی بھیsamename  جماعتیں Jamiat Ulema-e Islam  (ف) جس کے Amir Maulana Fazl Rahman ہیں، Jamiat Ulema-e-Islam (S)جس کے صدر مولانا سمیع الحق ہیں، Jamiat Ulema-e Islam Noorani جس کے صدر Sahibzada Abdul Khair Mohammad Zubair ہیں اور Jamiat Ulama Islamic ideology پاکستان جس کے صدر Maulana Khalil Ahmad Mukhlis ہیں بنیں۔

اس بار ایسی ہی صورتحال کا شکار تحریک انصاف نظر آ رہی ہے اور مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، Jamiat Ulema-e Islam کے بعد پاکستان تحریک انصاف کیsamename  جماعتیں  پاکستان تحریک انصاف نظریاتی اور پاکستان تحریک انصاف Gulalai کے نام سے سامنے آئی ہیں۔  یہ جماعتیں اور ان کے رہنما آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔  آئندہ الیکشن میں یہ samename جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو کم یا زیادہ لیکن نقصان ضرور پہنچا سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی میں دھڑے بندیاں کوئی نئی بات نہیں، پارٹی کے ناراض اراکین نے پہلے پارٹی کے اندر مختلف گروپ بنائے  اور یہ گروپ بندیاں 2013 ء کے عام انتخابات سے پہلے ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات میں کھل کر سامنے آئیں۔  جب اختلافات مزید بڑھے تو کچھ نالاں اراکین نے اپنی جماعتیں بنا ڈالی۔ 2016 میں شیخوپورہ سے تحریک انصاف کے سابق رہنما اور دیرینہ کارکن اختر اقبال ڈار نے اختلافات کی بنا پر پارٹی چھوڑ کر اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے نام سے بنائی تھی، جس کو الیکشن کمیشن سے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کرا لیا تھا۔ اختر اقبال ڈار اس نئی پارٹی کے چئیرمین ہیں۔

2018 کے عام انتخابات کے لیے پی ٹی آئی نظریاتی کے پارلیمانی بورڈ نے منظوری کے بعد 40 قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے  جبکہ باقی ٹکٹوں کا اعلان 25 جون تک کر دیا جائے گا۔  پی ٹی آئی این کے امیدوار بلے باز کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا ہے۔  ملتا جلتا نام اور ملتا جلتا انتخابی نشان ووٹرز کے لیے ابہام پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح پارٹی کے اندورنی اختلافات نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔  گزشتہ برس پارٹی سے نالاں کارکن اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سابق رکن قومی اسمبلی Ayesha Gulalaiنے  تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر بہت سے الزامات لگائے۔  Ayesha Gulalai نے عمران خان سے شادی کے معاملے پر اختلافات کے بعد پارٹی چھوڑ دی تھی۔  انہوں نے اپنے بیانات میں پی ٹی آئی چیئرمین پر کڑی تنقید کی، بے ہودہ موبائل پیغامات بھیجنے کا الزام لگایا  اور تحریک انصاف کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔

Ayesha Gulalai نے اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف Gulalai کے نام سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ کروایا۔ آئندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف Gulalai کے امیداران  ریکٹ  کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف Gulalai کی جانب سے 4 خواجہ سرائوں کو عام انتخابات کے لیے ٹکٹ جاری کر دیے گئے۔ خواجہ سرائوں کو ٹکٹ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا موقف تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواجہ سرائوں کو انتخابی ٹکٹ دیا جا رہا ہے،  جن میں خواجہ سرا Nayyab Ali این اے 142 سے الیکشن لڑیں گی جبکہ Nadeem Kashesh این اے 52 سے الیکشن لڑیں گی، Lubna Lal پی پی 26 اور Madam Rani پی کے 40 سے الیکشن لڑیں گی۔

اسلام آباد سے Tariq Fazal Chaudhary کے مقابلے میں خواجہ سرا امیدوار الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ پارٹی کی سربراہ Ayesha Gulalai نے عمران خان کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے  اور این اے 53 اسلام آباد سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ Ayesha Gulalai نے بیک وقت 6 حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ Ayesha Gulalai تحریک انصاف کے ناراض اور پارٹی ٹکٹ سے محروم ہونے والے رہنمائوں سے رابطے کی کوشش کر رہی ہیں اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ آفر کر رہی ہیں۔ اس طرح کی جماعتیں ماضی میں بھی سامنی آتی رہی ہیں جن کا مقصد انتخابات میں کسی خاص جماعت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نظریاتی اور تحریک انصاف Gulalai انتخابات میں تحریک انصاف عمران خان کو نقصان پہنچانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں اس کا اندازہ تو الیکشن کے نتائج ہی بتا پائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply