ترک صدر کی شخصیت اور پالیسی ۔۔۔۔۔۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ملک میں صدارتی انتخاب میں واضح جیت

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ملک میں صدارتی انتخاب میں واضح جیت

نیوز ٹائم

پاکستان میں بھی کوئی طیب اردگان آجائے تو کیا شراب خانے کھل سکیں گے؟ اسرائیل سے سیاسی و سفارتی تعلقات کی اجازت مل جائے گی؟ لبرل و سیکولر ازم کی آزادی ہو گی؟ ترک صدر طیب اردگان کو ہیرو اور رول ماڈل سمجھنے والے ترک صدر کے مذہبی ڈراموں سے متاثر ہیں لیکن اس کی شخصیت کا سیکولر اور کرپشن والا رخ دیکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔ پاکستانیوں کو ماشا اللہ مذہبی ڈراموں سے کوئی بھی مرعوب کر سکتا ہے۔ جہاں تک ترکی کی معیشت کا تعلق ہے تو طیب اردگان اگر کرپشن کرتا ہے تو ملک کے معیشت کو مستحکم بھی کیا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی طرح نہیں کہ مذہب کو بھی ایکس پلانیٹ کرو  اور کرپشن بھی ڈٹ کر کرو اور ملک کو کنگال کر کے باہر بھاگ جائو۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ملک میں صدارتی انتخاب میں واضح جیت کے بعد اب وسیع پیمانے پر طاقت اور اختیارات حاصل کر لیں گے۔ ان کی کامیابی کے بعد ملک کی پارلیمان کمزور ہو گئی ہے اور پچھلے سال کے ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔ شکست خوردہ صدارتی امیدوار Muharram Ince نے کہا کہ ‘ملک اب ایک خطرناک دور میں داخل ہو رہا ہے  جس میں یکطرفہ طور پر حکومت کی جائے گی۔  ڈاکٹر سہیل درست کہتے ہیں کہ ترکی کا لیڈر اردگان ایک بہترین لیڈر ہے اور ترک بہترین قوم ہیں۔  ساری دنیا میں مسلم امہ اس سے خوش ہے کیوں کہ اردگان مذہب کا چورن بیچتا ہے، مگر ملک میں شراب اور قبحہ خانے سرِ عام کھلے ہوئے ہیں۔ ترکی میں جسم فروشی کو باقاعدہ قانونی حیثیت ہے۔  مجال ہے جو کوئی ترک مظاھرہ کرے کہ یہ شراب خانے اور ڈانس کلب بند کرنے چاہیے، حالانکہ اسلامی ذھن کے لوگ ترکی میں بھی بستے ہوں گے۔  مجال ہے جو ترک قوم کو مذہب کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہوں۔ ترکی میں مسجدوں کے ساتھ شراب خانے کھلے ہیں، ادھر اذان ہوتی ہے تو کچھ لوگ مسجد جاتے ہیں تو کچھ مے خانے میں۔  ہمارے ملک میں تو اذان کی آواز پر سر پہ ڈوپٹے تان لئے جاتے ہیں۔ اردگان، فلسطین پر ہلکا پھلکا بیان دے دیتا ہے مگر اسرائیل اس کا بہترین تجارتی پارٹنر ہے۔  باوجود پاکستان اور اسلامی کے ذہن رکھنے والے سارے دوست اس کا ہر وقت دم بھرتے ہیں  مگر مجال ہے جو اردگان نے انڈیا سے کبھی کشمیریوں کے حقوق کے لئے بات کی ہو  بلکہ انڈیا نے ترکی سے بہترین سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔

دوسری طرف ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلم حکمران ہو اور کرپشن کے چارجز نہ ہو؟  اردگان اور اس کے بیٹے پر اربوں ڈالروں کی کرپشن کے الزامات ہیں، صرف اٹلی میں موصوف کے بیٹے بلال پر بلین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا ہے۔  دوسری طرف وہ پاکستانی مذہبی خیال کے لوگ جو اردگان پر واری اور صدقے جاتے ہیں، اپنے ملک میں ان کو سیکولر اور لبرل آئیڈیاز سے سخت نفرت ہے۔ یہ اردگان پر واری جانے والے اپنے ملک میں لبرل اور سیکولر سوچ رکھنا چاہیں گے؟ پاکستان آج ترکی اور دوبئی بن چکا ہوتا، تو بجائے پاکستانی ان ملکوں میں مزدوری کرنے آتے۔  آج ترک اور شیخ یہاں مزدوری کرنے آتے۔ مسٹر اردگان کے سیاسی مخالفین نئے پرتعیش صدارتی محل کو ان کے مبینہ حکمرانہ انداز کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دارالحکومت انقرہ کی مضافاتی پہاڑی پر موجود ہزار کمروں کا ایک سفید محل امریکہ کے وائٹ ہائوس یا روس کے کرملن سے بڑا ہے اور اس پر 61 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ اخراجات آئے ہیں۔  رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی کو ترکی کے اندر قدامت پسند مسلمانوں میں بہت مقبولیت حاصل ہے، جبکہ ملک سے باہر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو اکثر طاقت کے زور پر دبا دیتے ہیں۔  اردگان کے دور حکومت میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں اور ان کے خلاف مقدمات دائر کئے گئے ہیں۔  اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ماہ سامنے آئی جب پولیس نے ترکی کے سب سے بڑے اخبار زمان کے دفتر پر چھاپہ مارا اور عملے کو ڈرایا دھمکایا۔

زمان نے پابندیوں سے پہلے اپنی آخری آزاد اشاعت میں لکھا تھا کہ ترکی کے پریس نے تاریک ترین دن دیکھا ہے اور حکومت کے اختیار میں آنے کے بعد اس میں مسلسل حکومت نواز مضامین شائع کئے جاتے رہے ہیں۔  پاکستان کے لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی طیب اردگان آئے تو پھر لبرل ازم کا پہلو بھی سامنے رکھیں۔  پاکستانی لوگ منافقانہ سوچ رکھتے ہیں۔ اردگان کی مذہبی پالیسی چاہئے لیکن اس کا لبرل و سیکولر ازم اور کرپشن بھی منظور ہو گی؟  ترک صدر سول لباس میں ایک جمہوری آمر ہے۔

ترکی کے سیاسی پس منظر کے مطابق جمہوری آمر کامیاب حکومت کر سکتا ہے  جبکہ پاکستان میں سول حکومتوں نے جب بھی مطلق العنان بننے کی کوشش کی آمریت نے اپنا رنگ دکھایا۔  پاکستانی عوام نفاذ اسلام بھی چاہتے ہیں لیکن اندر خانے امریکہ کی غلامی کا روگ بھی پال رکھا ہے۔  طیب اردگان کے بھی امریکہ اور اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں۔  یعنی یہود و نصاری کی دوستی کا تعاون مکمل حاصل ہے اس جمہوری آمر کو۔

No comments.

Leave a Reply